گرہ چندر تپن جوت برت ہے سُرت راگ نرت تار باجے
گرہ چندر تپن جوت برت ہے سُرت راگ نرت تار باجے
نوبتیا گھرُت ہے رین دن سن میں کہے کبیرؔ پیو گگن گاجئے
سورج، چاند اور تاروں کے چراغ جل رہے ہیں، پریم کا راگ بیراگ (بے تعلقی) کے تال اور سر پر بلند ہو رہا ہے۔ فضاؤں میں رات دن نوبت بج رہی ہے، اور کبیرؔ کہتے ہیں کہ میرا پریتم آسمانوں میں بجلی کی طرح چمک رہا ہے۔
چھن اور پلک کی آرتی کون سی رین دن آرتی وسو گاوے
گھرُت نسان تنہ گیب کی جھالر گیب کی گھنٹ کا ناد آوے
وہاں لمحے بھر کی اور پل بھر کی آرتی کہاں۔ سارا سنسار رات دن آرتی اتارتا ہے اور گیت گاتا ہے۔ طبل اور نشان بج رہے ہیں۔ جھلمل جیوتی کی غیبی جھالر جگمگا رہی ہے، غیب کے گھنٹوں کی آواز آ رہی ہے۔
کہے کبیرؔ تنہ رین دن آرتی جگت کے تکھت پر جگت سائیں
کرم اور بھرم سنسار سب کرت ہیں پیو کی پرکھ کوئی پریمی جانے
سُرت او نرت دھار من میں پکڑ کر گنگ اور جمن کے گھاٹ آنے
پانچ کو ناتھ کری ساتھ سونہ لیا ادھر دریاو کا سکّھ مانیں
کہیں کبیرؔ سوئی سنت نربھے دھرا جنم اور مرن کا مرم بھانے
نیر نرمل تہاں رین دن جھرت ہے جنم اور مرن تب انت پائی
کبیرؔ کہتے ہیں کہ وہاں رات اور دن اپنے چراغوں کو گردش دے رہے ہیں۔ جگت کے تخت پر جگت کا مالک بیٹھا ہوا ہے۔ سارا سنسار گرم اور بھرم (کام اور غلطی) میں مبتلا ہے۔ ایسے پریمی کم ہیں جو پریتم کو پہچانتے ہوں۔ اصلی عاشق وہ ہے جو اپنے دل میں پریم (تعلق) اور بیراگ (بےتعلقی) کی لہروں کو اس طرح ملا لیتا ہے جسے گنگا اور جمنا کے دھارے مل جاتے ہیں۔ اس کے دل میں یہ مقدس پانی ہمیشہ بہتا رہتا ہے تب کہیں جا کر جنم اور مرن، موت اور زندگی کا انت ہوتا ہے۔
دیکھ ووجود میں عجب بسرام ہے ہوے موجود تو سہی پاوے
سُرت کی ڈور سکھ سدھ کا جھولنا گھور کی سور تنہ ناد گاوے
نیر بن کنول دیکھ اتی پھلیا کہے کبیرؔ من بھنور چھاوئے
دیکھ وجود میں کیسا آرام ہے۔ اس کا لطف وہی اٹھا سکتا ہے جو وجود کو محسوس کر سکے۔ پریم کی ڈوریاں ہیں اور سکھ کے ساگر کا جھولا ہے جو پینگیں لے رہا ہے، لفظ وہاں بادلوں کی طرح گرج رہے ہیں، ایک عظیم الشان نغمہ بلند ہو رہا ہے، وہاں بغیر پانی کے کنول کھلا ہو دکھائی دیتا ہے اور کبیر ؔکہتے ہیں کہ من کا بھونرا اس کا رس پی رہا ہے۔
چکر کے بیچ میں کنول اتی پھلیا تاسو کا سکھ کوئی سنت جانے
شبد کی گھور چہوں اور تنہ ہوتے ہے اسیم سمندر کی سکھ مانے
کہے کبیرؔ یو ڈوب سوکھ سدھ میں جنم اور مرن کا بھرم بھانے
کائنات کے چکر کے دل میں کیسا حسین کنول کھلا ہوا ہے، اس کا لطف کچھ سنت ہی اٹھا سکتے ہیں (جن کی روحیں پاک ہیں) نغمے (شبد = لفظ) کی گھٹائیں چاروں طرف چھائی ہوئی ہیں اور دل ایک بیکراں سمندر کی مسرت میں ڈوبا ہوا ہے۔ کبیرؔ کہتے ہیں کہ اس سکھ ساگر میں اس طرح ڈوب جاؤ کہ زندگی اور موت کا بھرم باقی نہ رہ جائے۔
پانچ کی پیاس تنہ دیکھ پوری بھئی تین کی تاپ تنہ لگے ناہیں
کہے کبیرؔ یہ آگم کا کھیل گیب کا چاند نا دیکھ ماہیں
جنم مرن جہاں تاری پرت ہے ہوت آنند تنہ گگن گاجے
اٹھت جھنکار تنہ ناد انہد گھرُے ترَلوک محل کے پریم باجے
دیکھو وہاں پانچوں لذتوں (شبد، سپرش، روپ، رس، گندھ) کی پیاس بجھ گئی ہے اور تینوں دکھ (مادی، روحانی، ذہنی) کا بخار اتر گیا ہے۔ یہ عقل و فہم سے بالاتر (اگم) کا کھیل ہے۔ دیکھو تمہارے وجود میں غیب کی چاندنی ہے۔ وہاں زندگی اور موت کی تالیاں مسلسل بج رہی ہیں، مسرت کی روشنی آسمانوں میں پھیلی ہوئی ہے، ایک ابدی نغمے کی جھنکار سنائی دے رہی ہےا ور ترلوک محل (تینوں دنیاؤں کا ایوان) کے پریم باجے بج رہے ہیں۔
چند تپن کوٹی دیپ برت ہے تور باجے تہاں سنت جھولے
پیا جھنکار تنہ نور برست رہے رس پیوے تنہ بھکت جھولیے
چاند اور سورج کے کروڑوں چراغ جل رہے ہیں۔ نقارے بج رہے ہیں اور عاشق (سنت) پینگ بڑھا رہا ہے۔ پریم کا گیت گونج رہا ہے، نور برس رہا ہے۔ اور پجاری (بھگت) بھگتی کا رس پی کر جھوم رہا ہے۔
جنم مرن بیچ دیکھ انتر نہی دچّھ اور بام یوں ایک آہی
کہیں کبیرؔ یا سین گونگا تئی وید کتّیب کی گَمّ ناہی
ادھر آسن کیا اگم پیالہ پیا جوگ کی مول جگ جُگتُی پائی
پنتھ بن جائے چل سہر بے گَم پرے دیا جگدیو کی سہج آئی
دھیان دھر دیکھیا نین بن پوکھیا اگم اگادھ سب کہت گائی
سہر بے گَم پورا گَمّ کو نا لہے ہوئے بے گَمّ جو گَمّ پاوے
گنا کی گَمّ نا عجب بسرام ہے سین جو لکھے سوئی سین گاوے
زندگی اور موت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ داہنا اور بایاں ہاتھ ایک ہی ہے۔ کبیرؔ کہتے ہیں کہ یہاں محرمِ راز گونگا ہو جاتا ہے۔ یہ وہ صداقت ہے جو ویدوں اور کتابوں میں نہیں ملتی (صرف محسوس کی جا سکتی ہے)۔
مکھ بانی تِکو سواد کیسے کہے سواد پاوئے سوئی سکّھ مانے
کہے کبیرؔ یا سین گونگا تئی ہوئے گونگا جوئی سین جانے
میں نے شونیہ کے (خلاؤں میں معلق) آسن پر بیٹھ کر سادھنا کے ناقابل بیان رس کا پیالہ پیا۔ اب میں اسرار کا محرم ہوں اور وحدت کے راز کا سمجھنے والا ہوں۔ راہ کے بغیر جل کر میں اس شہر میں پہنچ گیا ہوں جہاں کوئی غم نہیں ہے۔ (بیگم پورا = بے غم پور) جگدیو کا رحم اور کرم آسانی سے نصیب ہو گیا ہے۔ میں نے دھیان دھر کے دیکھا تو وہ بغیر آنکھوں کے نظر آ گیا جو لا محدود ہے۔ جسے لوگ نارسائی کی منزل کہتے ہیں۔ یہ مقام غموں سے آزاد ہے۔ یہاں پہونچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لیکن جس نے غم پایا وہی بے غم ہو گیا۔ یہاں عجب آرام ہے۔ دانشمند وہ ہے جس نے یہ مقام دیکھا ہے۔ دانشمند وہ ہے جس نے اس کا گیت گایا ہے۔
چھکیاں اودھوت مستان ماتا رہے گیان ویراگ سدھی لیا پورا
سوانس اُسوانس کا پریم پیالہ پیا گگن گرجے تہا بجے تورا
بن کر تانتیا ناد تاگا رہئے جتن جرنا لیا سدا کھیلے
کہے کبیرؔ پران پران سندھ میں ملاوئے پرم سکھ دھام تنہ پران ملےِ
یہ حرفِ آخر ہے، مگر اس کا مزا کیسے بیان کیا جائے۔ جس نے مزا چکھا ہے وہی اس لذت کو جانتا ہے۔ کبیرؔ کہتے ہیں کہ اس سے لذت اندوز ہونے کے بعد جاہل دانشمند بن جاتا ہے اور دانشمند خاموش ہو جاتا ہے۔
آٹھہو پہر متوالی لاگی رہئے آٹھہو پہر کی چھاک پیوے
آٹھہو پہر مستان ماتا رہے برہم کے دیہہ میں بھکت جیوے
سانچ ہی کہت اور سانچ ہی گہت ہے کانچ کوں تیاگ کر سانچ لاگا
کہیں کبیرؔ یوں بھکت نربھر ہوا جنم اور مرن کا بھرم بھاگا
گگن گرجئے تہاں سدا پاوس جھرے ہوت جھنکار نت بجت تورا
دِوس اور رین تنہ نیک نہیں پائیے پریم پرکاس کے سندھ ماہی
سدا آنند دکھ درد ویاپے نہیں پورنانند بھرپور دیکھا
دھرم اور بھرانتی تنہ نیک نہیں پائیے کہیں کبیرؔ رس ایک پیکھا
کھیل برہمانڈ کا پنڈ میں دیکھیا جگت کی بھرمنا دور بھاگی
باہرا بھیترا ایک آکاس وت گھریا میں ادھر بھرپور لاگی
دیکھ دیدار مستان میں ہوے رہیا سکل بھرپور ہے نورا تیرا
گیان کا تھال اور پریم دیپک اہئے ادھر آسن کیا اگم ڈیرا
کہیں کبیرؔ تنہ بھرم بھاسیے نہیں جنم اور مرن کا مٹا پھیرا
اَؤدُھوت (جوگی) نشے میں چور ہے۔ گیان (علم) اور ویراگیہ (سے تعلقی) کی تکمیل ہو گئی ہے۔ آتی جاتی سانس کا پریم پیالا اس نے پیا ہے۔ سارا آکاش سنگیت سے بھرا ہوا ہے
- کتاب : کبیر سمگر (Pg. 759)
- Author :کبیر
- مطبع : ہندی پرچارک پبلیکیشن پرائیویٹ لیمیٹید، وارانسی (2001)
- اشاعت : 5th
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.