میرے بچھڑے ہوئے ہمدم میرے دیرینہ حبیب
دلچسپ معلومات
(شاعر۔ مئی ۱۹۴۹۔آگرہ)
میرے بچھڑے ہوئے ہمدم میرے دیرینہ حبیب
میرا ہر خواب ہے لب تشنۂ تعمیر اے دوست
میری گویائی ہے بے جاں سی تحریر اے دوست
اجنبیت نظر آتی ہے مجھے راہوں میں
کتنا مغموم سا رہتا ہوں سفر گاہوں میں
جلوہ گاہوں سے گزرتا ہوں بے معنی
بہ ہر انداز سنورتا ہوں مگر بے معنی
نہ خیالوں میں تسلسل نہ ارادوں میں ثبات
تو نے کیوں چھین لی مجھ سے مری زنجیر حیات
تیری پرجوش رفاقت ہے سر ذہن ندیم
میرے گیتوں میں سمویا ہے تیرا لحن ندیم
ہم کہ بچھڑے نہ کبھی عرصۂ بچپن سے ندیم
دو الگ راہوں میں کیوں آج یہ آوارہ ہیں
کچھ نہیں پختگی شوق میں ناکارہ ہیں
میری مجبوری جسے تو نے ارادہ سمجھا
میری کمزوری فطرت کا اعادہ سمجھا
وقت نے بڑھ کے دل صاف کو بے نور کیا
اور یوں تجھ کو رفاقت سے مری دور کیا
ہم کہ بچھڑے نہ کبھی عرصۂ بچن سے ندیم
دو الگ راہوں میں کیوں آج یہ آوارہ ہیں
کچھ نہیں پختگی شوق میں ناکارہ ہیں
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 163)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.