نہ تو اپنے گھر میں قرار ہے نہ تری گلی میں قیام ہے
تری زلف و رخ کا فریفتہ کہیں صبح ہے کہیں شام ہے
ہم کو یاں در در پھرایا یار نے
لا مکاں میں گھر بنایا یار نے
کس گھر میں کس حجاب میں اے جاں نہاں ہو تم
ہم راہ دیکھتے ہیں تمہاری کہاں ہو تم
ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر ،باہر چلے
سایا کوئی میں اپنے ہی پیکر سے نکالوں
تنہائی بتا کیسے تجھے گھر سے نکالوں
کل آتے آتے مرے گھر گئے رقیب کے پاس
حضور آپ ہی کہہ دیں یہ چال ہے کہ نہیں
عجب اعجاز ہے تیری نظر کا
کہ ہم بھولے ہیں رستہ اپنے گھر کا
ٹھہرنا دل میں کچھ بہتر نہ جانا
بھرے گھر کو انہوں نے گھر نہ جانا
مجھی سے پوچھتے ہو میں ہی بتلا دوں کہ تم کیا ہو
تجلی طور سینا کی میرے گھر کا اجالا ہو
جغرافیے نے کاٹ دیے راستے مرے
تاریخ کو گلہ ہے کہ میں گھر نہیں گیا
تمہارے گھر سے ہم نکلے خدا کے گھر سے تم نکلے
تمہیں ایمان سے کہہ دو کہ کافر ہم ہیں یا تم ہو
کون سا گھر ہے کہ اے جاں نہیں کاشانہ ترا اور جلوہ خانہ ترا
مے کدہ تیرا ہے کعبہ ترا بت خانہ ترا سب ہے جانانہ ترا
چڑہ چناں تے کر رشنائی کالی رات ہجر دی
شمہا جمال کمال سجن دی آ گھر بال اس اڈے
کو بہ کو پھر تا ہوں، میں خانہ خرابوں کی طرح
جیسے سودے کا تیرے سر میں میرے گھر ہو گیا
عشق بت کعبۂ دل میں ہے خدایا جب سے
تیرا گھر بھی مجھے بت خانہ نظر آتا ہے
دل ہمارا کہ گھر یہ تیرا تھا
کیوں شکست اس مکان پر آئی
پوچھا میں درد سے کہ بتا تو سہی مجھے
اے خانماں خراب ہے تیرے بھی گھر کہیں
ترک ہستی سے مری خانہ بدوشی مٹ گئی
لا مکاں پہنچا تو گھر اپنا نظر آنے لگا
اپنے ہاتھوں مہندی لگائی مانگ بھی میں نے دیکھو سجائی
آئے پیا گھر رم جھم برسے جاؤ بتا دو ساون کو
دیکھ کر کعبے کو خالی میں یہ کہہ کر آ گیا
ایسے گھر کو کیا کروں گا جس کے اندر تو نہیں
جان کھو بیٹھے گا اپنی یہ نصیرؔ خستہ دل
اس کے پہلو سے اب اٹھ کر گھر کو کیا جاتے ہو تم
میں نے بخشی ہے تاریکیوں کو ضیا اور خود اک تجلی کا محتاج ہوں،
روشنی دینے والی کو بھی کم سے کم اک دیا چاہیئے اپنے گھر کے لیے
من پایا ہے اس نے دل میرا کعبہ ہے گھر اللہ کا ہے
اب کھود کے اس کو پھکوا دے وہ بت نہ کہیں بنیاد ستی
میں نے پوچھا غیر کے گھر آپ کیا کرتے رہے
ہنس کے فرمایا تمہارا راستا دیکھا کئے
ہمیں ہے گھر سے تعلق اب اس قدر باقی
کبھی جو آئے تو دو دن کو مہماں کی طرح
نہیں دین ودنیا کا ہوش اب ہوں، ہجر میں تیری جاں بلب
مجھے کاٹے کھاتا ہے اپنا گھر نا ادھر کا رہا نا ادھر کا رہا
کعبہ ہو بت کدہ ہو کہ وہ کوئے دوست ہو
دل تیرا چاہے جس میں اسی گھر میں جا کے پی
پاتے نہیں آپ کو کہیں یاں
حیران ہیں کس کے گھر گئے ہم
نہ تم آئے نہ اپنی یاد کو بھیجا مرے دل میں
یہ وہ گھر ہے کہ جس کو تم نے رکھا بے مکیں برسوں
خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے
ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی
منتظر رہنا بھی کیا چاہت کا خمیازہ نہیں
کان دستک پر لگے ہیں گھر کا دروازہ نہیں
تم تو آتے ہی قیامت کرتے ہو صاحب بپا
دل میں آتے ہو تو آؤ گھر میں آنے کی طرح
لگتا ہے نہ گھر میں دل نہ باہر
کس نے یہ کیا اداس مجھ کو
کیا برباد ارمانوں نے دل کو
مرے دشمن تو گھر کے فرد نکلے
گر دل میں چشم بینا ہو بت خانہ ہو یا کعبہ ہو
گھر گھر میں ہیں اس کے درشن سبحان اللہ سبحان اللہ
لیکے دل میں محبت کی پاکیزگی گھر سے نکلے تھے دیر و حرم کے لیے
ہم جنوں میں نہ جانے کہاں آ گئے ماہ و انجم نے بوسے قدم کے لیے
کر دیا برباد سارا عشق نے جب خانماں
شہر میں چرچا میرا پھر گھر بہ گھر ہونے لگا
گھر ہوا گلشن ہوا صحرا ہوا
ہر جگہ میرا جنوں رسوا ہوا
میں بلانوش ہوں پی جاؤں جو دریا پاؤں
مجھے گھر بیٹھے مئے ہوش ربا دیتا ہے
مل گیا ہے دل کسی دیدار سے
ہو گیا بیزار اب گھر بار سے
نام اگر درکار ہے مثل نگیں
ایک گھر میں جم کے بیٹھا کیجیے
ہمیں دیر و کعبہ خدا و صنم
ہمیں صاحب خانہ گھر بھی ہمیں
جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا
تاریک کر گیا گھر حسرت کشیدگاں کا
ہم ایسے ہوئے دیکھ کر محو حیرت
خبر ہی نہیں کون آیا ہے گھر میں
اگر ایک پل ہو جدائی تیری
تو صحرا مجھے سارا گھر بار ہو
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere