اگر صد ہمچو من گردد ہلاک او را چہ غم دارد
اگر صد ہمچو من گردد ہلاک او را چہ غم دارد
کہ نے عاشق نمی یابد کہ نے دل خستہ کم دارد
اگر مجھ جیسے سیکڑوں لوگ ہلاک ہو جائیں تو اسے کیا غم
اس کے پاس نہ تو عاشقوں کی کمی ہے نہ ہی ٹوٹے دل والوں کی کمی ہے
چو اسماعیل پیش او بنوشم زخم نیش او
کاسیر حکم آں عشقم کہ صد طبل و علم دارد
میں چاہتا ہوں کہ اسماعیل کی طرح اس کے زخم کی نوک کا مزہ چکھوں
میں خلیل کا خریدار ہوں، اگر وہ مجھ پر ستم کر رہا ہے تو کوئی بات نہیں
مرا یار شکر ناکم اگر بنشاند در خاکم
چرا غم دارد آں مفلس کہ یار محتشم دارد
میرا شیریں محبوب اگر مجھے مٹی میں ملا دے
تو اس مفلس کو کیا غم، اس کا یار بڑی شان والا ہے
غمش در دل چو گنجوری دلم نورٌ علیٰ نوری
مثال مریم زیبا کہ عیسیٰ در شکم دارد
اس کا غم دل میں خزانےکی طرح ہے، میرا دل نور سے معمور ہے
اس مریم کی طرح جس نے عیسی کو اپنے شکم میں رکھا تھا
ز درد او دہاں تلخست ہر دریا کہ می بینی
ز داغ او نکو بنگر کہ روئے مہ رقم دارد
اس کے درد سے ہی دریا کا پانی تلخ ہوگیا ہے
سچی بات یہ ہے کہ اس کا ہی داغ چاند کے چہرے پر ہے
طبیبی چوں دہد تلخش بنوشد تلخ او را خوش
طبیباں را نمی شاید کہ عاقل متہم دارد
طبیب جب کڑوی دوا دیتا ہے تو اسے بخوشی پی لی جاتی ہے
اس کے لیے عقلمند ڈاکٹر کو برا بھلا نہیں کہتے
خمش کن کاندریں دریا نشاید نعرہ و غوغا
کہ غواص آں کسے باشد کہ او مساک دم دارد
خاموش رہو اس دریا میں شور و غل اچھی بات نہیں
عقلمند غواص وہی ہوتا ہے جو دریا میں اپنی سانس کو روکے رکھتا ہے
- کتاب : کلیات شمس تبریزی (Pg. 199)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.