کاروان حیات
کاروان زندگی پیہم رواں ہے صبح و شام
اس فنا کے دیس میں حاصل ہوا کس کو قیام
پھول جو کھلتا ہے وہ ایک دن یہاں مرجھائے گا
یہ سرائے فانی ہے جو آئے گا وہ جائے گا
اپنی اپنی منزلوں پر ہیں ستارے گامزن
صبح دم خاموش ہو جاتی ہے ساری انجمن
رات کے دامن سے آ لگتا ہے نور آفتاب
شام پہنانے چلی آتی ہے سورج کو نقاب
جگمگاتی صبح کی تقدیر کالی شام ہے
زندگی کی دھڑکنوں کا موت ہی انجام ہے
لکھنے والے نے لکھا ہستی کی قسمت میں زوال
ہاں مگر باقی رہے گی ذات رب ذو الجلال
مرد کامل ہے وہی جو منزلیں طے کر گیا
زندگی اس کی ہے جو مرنے سے پہلے مر گیا
موت کیا ہے حق سے بندے کو ملانے کا سبب
موت سے ڈرتے نہیں جو جاگتے ہیں نیم شب
پیر پیغمبر ولی درویش مردان خدا
موت کی وادی سے گزرے ہیں بہ تسلیم و رضا
زندگی اور موت ہے اپنی خدا کے واسطے
مرد مومن ہے فقط صبر و رضا کے واسطے
سانس کی آری سے کٹ جاتا ہے ہستی کا شجر
زندگی میں موت سے ممکن نہیں ہرگز مفر
حشر برپا ہیں کئی اک جذبۂ خاموش میں
زندگی سوتی ہے آخر موت کی آغوش میں
روز اول سے یہی ہے زندگی کا سلسلہ
موت کیا ہے زندگی کا آخری ایک مرحلہ
برق میں تنکے ہیں واصفؔ یا کہ ہے تنکوں میں برق
موت اور ہستی میں کیا سمجھے کوئی انسان فرق
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.