ایسی ہی انتظار میں لذت اگر نہ ہو
ایسی ہی انتظار میں لذت اگر نہ ہو
تو دو گھڑی فراق میں اپنی بسر نہ ہو
جانا ہو نامہ بر کا تو آنا ادھر نہ ہو
تا فرصت انتظار سے پھر عمر بھر نہ ہو
قاصد وہ بھیجئے جسے اپنی خبر نہ ہو
اے دل وہ بات کر کہ کسی کا ضرر نہ ہو
الزام کا عتاب کا اس کے خطر نہ ہو
یہ کیا کہ چشم مہر ادھر ہو ادھر نہ ہو
کیوں کر کہوں کہ لطف کبھی غیر پر نہ ہو
ہو بھی تو گاہ گاہ مگر اس قدر نہ ہو
آرام ہو سکون ہو سارے جہان کو
جنبش نہ ہو زمیں کی طرح آسمان کو
میں منہ میں لے کے یہ کہوں اس کی زبان کو
جب وصل ہو نصیب کسی خستہ جان کو
اس شب کی تا قیامت الٰہی سحر نہ ہو
ڈر ہے شریک رحم نہ ہوں دشمن حزیں
تاثیر میں بلا ہے مری آہ آتشیں
دل موم بن کے جائے پگھل یہ بھی کچھ نہیں
آئے نہ فرق سنگ دلی میں ترے کہیں
نالے بھی کیجیے وہ کہ جن میں اثر نہ ہو
کس کا شہید ناز چلا تشنہ کام آج
فردوسیوں کو ہے مے کوثر حرام آج
غلمان و حور کرتے ہیں سب اہتمام آج
سنتے ہیں خلد میں ہے بہت دھوم دھام آج
بسمل کا تیرے دہر سے عزم سفر نہ ہو
میں وہ کہ میرے نالے کلیجے نکال لیں
تو وہ کہ تیری باتیں سنیں سب تو جان دیں
دونوں بلائے جاں ہیں علاج اس کا کیا کریں
رونے سے میرے تیری اداؤں سے بزم میں
کوئی نہیں جو ہاتھوں سے تھامے جگر نہ ہو
جب دیکھتا ہے لطف ترا جانب عدو
تصویر یاس پھرتی ہے آنکھوں کے روبرو
بہتا ہے چشم تر سے مرے خون آرزو
افسوس اپنے جی سے بھلائے اسی کو تو
جس دل کو تیری یاد میں اپنی خبر نہ ہو
مرجھا کے رہ نہ جائے کہیں تو مجھے ہے ڈر
نازک ہے دل ترا کہیں اس پر نہ ہو اثر
برپا ہو حشر آئیں تلاطم میں بحر و بر
ساتوں فلک کے ٹکڑے اڑیں تو اڑیں مگر
فریاد غیر دل میں ترے کار گر نہ ہو
آفت ہے اضطراب تو بیتابیاں ستم
آنکھیں بچھا رہا ہوں سر رہ قدم قدم
ہمدم تو ہی بتا مرے سر کی تجھے قسم
دل کو نہیں قرار جو پہلو میں ایک دم
پلٹا کہیں ادھر سے مرا نامہ بر نہ ہو
بے جا امید کی ہو کبھی تو اسے سزا
تڑپے تمام رات نہ پائے ترا پتا
تو میرے ساتھ صرف تماشا ہو جا بجا
کیا سیر ہو جو غیر سے وعدہ ہو وصل کا
ڈھونڈے وہ صبح تک تجھے تو اپنے گھر نہ ہو
آئے نظر میں بڑھ کے وفا سے جفائے یار
کم سمجھیں خواہشوں سے ستم ہائے بے شمار
مطلب کی ہے یہ بات بتا تو ہی غم گسار
جور و عتاب کیوں نہ سہیں ہم ہزار بار
لطف و کرم سے بھی جو اسے در گزر نہ ہو
کر کے لگاوٹیں نظر جاں گداز سے
آنسو بہا کے دیدۂ جادو طراز سے
دکھلا کے اک ادا نگۂ فتنہ ساز سے
مجھ کو ہے یاد وصل میں ڈر ڈر کے ناز سے
کہنا ترا کہ دیکھ کسی کو خبر نہ ہو
محشر کو طرز ناز ستم گر سمجھتے ہیں
فتنوں کو اس کے شوخیٔ دلبر سمجھتے ہیں
کچھ اس کو مجھ سے بیدل و مضطر سمجھتے ہیں
سب لوگ جس کو فتنۂ محشر سمجھتے ہیں
مجھ کو یہ خوف ہے کہ وہی فتنہ گر نہ ہو
پھانسیں جگر میں اپنے چبھیں یوں تو بیشتر
برسوں کھٹک سی دل میں بھی اپنے رہی مگر
بیتابیوں میں اتنی سی لذت کی کیا خبر
ذوق تپش میں چین کہاں دل کو چارہ گر
جب تک کہ سینے میں خلش نیشتر نہ ہو
جور فلک جفائے زمانہ غم حبیب
ان سب بلاؤں میں بھی رہیں خواہشیں عجیب
بن جائے جان پر بھی تو یا بخت یا نصیب
یا رب مرا شریک ہو جس صدمے میں رقیب
اس میں مزا نہ ہو جو مری جان پر نہ ہو
یہ بھی ہے خوف وہ نہ دل آزردہ ہو کہیں
فرق آئے اپنی بات میں توبہ بھی کچھ نہیں
کچھ پاس وضع دوست تو کچھ پاس رنج و کیں
رکھا ہے اس نے سوگ عدو کا تو ہم نشیں
اس ڈھب سے روئیے کہ پلک تک بھی تر نہ ہو
کرتا ہوں حال پر جو ذرا ان کے غور میں
پہلے سے دیکھتا نہیں اب ان کے طور میں
کرتے ہیں وہ کرم تو سمجھتا ہوں جور میں
وہ دیکھتے ہیں بیٹھے نگاہوں سے اور میں
ڈرتا ہوں کوئی فتنہ تو مد نظر نہ ہو
دزدیدہ اک نظر ہو لگاوٹ کی آنکھ سے
چوری چھپے کی بات ہے دل میں چھپی رہے
تکلیف دست و تیغ ہے خوف اس لیے
دشمن کہیں نہ رشک شہادت سے جان دے
یوں قتل ہوں کہ قتل مرا مشتہر نہ ہو
کھٹکے ہر ایک آنکھ میں وہ بڑھ کے خار سے
یہ کچھ نہیں کہ ہاتھ کسی کے نہ آ سکے
مٹ جانے پر بھی چرخ اسے پیچ و تاب دے
گھل گھل کے غیر خواہش غم سے خدا کرے
تار نگاہ ہو مگر اس کی کمر نہ ہو
لذت نصیب موت کی ہو مجھ کو کس طرح
بر آئے میری حسرت دل کہہ دو کس طرح
رسوائی اپنے عشق کی ہو بولو کس طرح
شہرت تمہارے جور و ستم کی ہو کس طرح
تشہیر میری لاش اگر در بدر نہ ہو
یہ تو مجال کیا ہے کہ الزام ان کو دیں
اتنا کہیں ریاضؔ ہماری جو کچھ سنیں
کیا آ گئی ہے آج یہ حضرت کے ذہن میں
نواب روز حشر خدا سے شکایتیں
اتنا بھی کوئی عشق بتاں میں نڈر نہ ہو
- کتاب : ریاض رضواں (Pg. 614)
- Author : ریاضؔ خیرآبادی
- مطبع : کتاب منزل،لاہور (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.