ہم وصل میں ایسے کھوئے گئے فرقت کا زمانا بھول گئے
ساحل کی خوشی میں موجوں کا طوفان اٹھانا بھول گئے
کیا پوچھتے ہو مجھ سے مرے دل کی آرزو
اب میری ہر خوشی ہے تمہاری خوشی کے ساتھ
خوشی سے دور ہوں نا آشنائے بزم عشرت ہوں
سراپا درد ہوں وابستۂ زنجیر قسمت ہوں
ہر چند فقط مختار نہیں ہر چند فقط مجبور نہیں
اک آہ تو بھر لوں اپنی خوشی اتنا بھی مجھے مقدور نہیں
ہے یہی شرط بندگی کے لئے
سر جھکاؤں تیری خوشی کے لئے
حسرت و ارماں کا دل سے ہر نشاں جاتا رہے
جس میں ہو تیری رضا میری خوشی ایسی تو ہو
ملنے کی ہے خوشی تو بچھڑنے کا ہے ملال
دل مطمئن بھی آپ سے ہے بے قرار بھی
تمنا دو دلوں کی ایک ہی معلوم ہوتی ہے
اب ان کی ہر خوشی اپنی خوشی معلوم ہوتی ہے
دہر فانی میں ہنسی کیسی خوشی کیا چیز ہے
رونے آئے تھے یہاں دو چار دن کو رو
غم جاناں سے دل مانوس جب سے ہو گیا مجھ کو
ہنسی اچھی نہیں لگتی خوشی اچھی نہیں لگتی
ہوا عشق سے یہ ہمیں استفادہ مزے میں وہی ہے جو ہے بے ارادہ
انہیں کی خوشی میں مزیداریاں ہیں نہیں تو بڑا دکھ اٹھانا پڑےگا
وہ بحر حسن شاید باغ میں آوے گا اے احساںؔ
کہ فوارہ خوشی سے آج دو دو گز اچھلتا ہے
وہ مجھ سے ملنے کو آئے ہیں میری موت کے بعد
خوشی بھی میرے لیے غم ہے کیا کیا جائے
میں جیا بھی دنیا میں اور جان بھی دے دی
یہ نہ کھل سکا لیکن آپ کی خوشی کیا تھی
نہیں دیتا جو مے اچھا نہ دے تیری خوشی ساقی
پیالے کچھ ہمیشہ طاق پر رکھے نہیں رہتے
رات تھوڑی سی ہے بس جانے دے مل ہنس کر بول
ناخوشی تا بہ کجا صبح ہوئی جاتی ہے
خوشی ہے زاہد کی ورنہ ساقی خیال توبہ رہے گا کب تک
کہ تیرا رند خراب افقرؔ ولی نہیں پارسا نہیں ہے
خوشی ہے سب کو روز عید کی یاں
ہوئے ہیں مل کے باہم آشنا خوش
کہیں روشنی کہیں تیرگی جو کہیں خوشی تو کہیں غمی
تیری بزم میں ہمیں دخل کیا ترے اہتمام کی بات ہے
عید سے بھی کہیں بڑھ کر ہے خوشی عالم میں
جب سے مشہور ہوئی ہے خبر آمد یار
پہلے تو خون میرا بہایا خوشی خوشی
پھر کیا وہ خود ہی سوچے کہ پچھتا کے رہ گئے
تیرے مزاج میں ایک دن بھی برہمی نہ ہوئی
خوشی کی بات تھی لیکن مجھے خوشی نہ ہوئی
حنا کی طرح اگر دسترس مجھے ہوتی
تو کس خوشی سے ترے پاؤں میں لگا کرتا
میری خوشی خوشی نہیں میرا الم الم نہیں
مجھ کو ہنسا گیا کوئی مجھ کو رلا گیا کوئی
خوشی سے ختم کر لے سختیاں قید فرنگ اپنی
کہ ہم آزاد ہیں بیگانۂ رنج دل آزاری
بد مزاجی ناخوشی آزردگی کس واسطے
گر برے ہم ہیں تو ہو جئے اور سے جا آشنا
تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی
وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی
آگ لگی وہ عشق کی سر سے میں پاؤں تک جلا
فرط خوشی سے دل مرا کہنے لگا جو ہو سو ہو
کچھ فکر تمہیں عقبیٰ کی نہیں احقرؔ یہ بڑی نادانی ہے
دنیا کی خوشی کیا ایذا کیا یہ حادث ہے وہ فانی ہے
بے خودی گر ہو خود تو آ کے ملے
اے خدا بے خودی عجب شے ہے
جب آگ دھدکتی ہو اس پر مت چھیٹیو تیل خدا را تم
کیا دل کی خوشی کو پوچھو ہو اے یارو اک ناشاد ستی
عیش وعشرت وصل وراحت سب خوشی میں ہیں شریک
بے کسی میں آہ کوئی پوچھنے والا نہیں
کدھر کی خوشی کہاں کی شادی
جب دل سے ہوس ہی سب اڑا دی
زمانہ ہیچ ہے اپنی نظر میں
زمانے کی خوشی کیا اور غم کیا
شاد کے نام سے ہر رنج و خوشی ہو کے ریاضؔ
صدر اعظم کو شب و روز دعا دیتا ہے
خوشی سے چوٹ کھانے کا مزہ یا کیف جاں سوزی
کوئی جاں سوز پروانہ یا کوئی دل جلا جانے
غم جاناں سے دل مانوس جب سے ہو گیا مجھ کو
ہنسی اچھی نہیں لگتی خوشی اچھی نہیں لگتی
خوشی سے وہ ہماری ہر خوشی پامال کر ڈالیں
جہاں تک ہے خوشی ان کی وہاں تک ہے خوشی اپنی
بار اجل اٹھائے جو کوئی خوشی خوشی
طاقت یہ کس میں ہے تیرے بیمار کے سوا
خوشی سے پاؤں پھیلاتے ہیں کیا کیا کنج تربت میں
عجب لذت ہے ترے ہاتھ سے قاتل شہادت میں
ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرتؔ
اب آگے تیری خوشی ہے سرفراز کرے
گرچہ کیفیت خوشی میں اس کی ہوتی ہے دو چند
پر قیامت لطف رکھتی ہے یہ جھنجھلانے کی طرح
وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا
کس گھر میں خوشی ہوتی ہے ماتم نہیں ہوتا
ہماری تربت پہ تم جو آنا تو ساتھ اغیار کو نہ لانا
خوشی کے صدمے ہمیں نہ دینا ہمارے غم کی خوشی نہ کرنا
دل میں جگر میں آنکھوں میں رہیے خوشی سے آپ
پھر یہ نہ کہیے گا کوئی ملتا مکاں نہیں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere