Sufinama

خوشی پر اشعار

ہم وصل میں ایسے کھوئے گئے فرقت کا زمانا بھول گئے

ساحل کی خوشی میں موجوں کا طوفان اٹھانا بھول گئے

کامل شطاری

کیا پوچھتے ہو مجھ سے مرے دل کی آرزو

اب میری ہر خوشی ہے تمہاری خوشی کے ساتھ

کامل شطاری

خوشی سے دور ہوں نا آشنائے بزم عشرت ہوں

سراپا درد ہوں وابستۂ زنجیر قسمت ہوں

شاہ محسن داناپوری

جو کچھ بھی خوشی سے ہوتا ہے یہ دل کا بوجھ نا بن جائے

پیمان وفا بھی رہنے دو سب جھوٹی باتیں ہوتی ہیں

آرزو لکھنوی

ہر چند فقط مختار نہیں ہر چند فقط مجبور نہیں

اک آہ تو بھر لوں اپنی خوشی اتنا بھی مجھے مقدور نہیں

کامل شطاری

خوشی محسوس کرتا ہوں نہ غم محسوس کرتا ہوں

مگر ہاں دل میں کچھ کچھ زیر و بم محسوس کرتا ہوں

بہزاد لکھنوی

ہے یہی شرط بندگی کے لئے

سر جھکاؤں تیری خوشی کے لئے

صادق دہلوی

حسرت و ارماں کا دل سے ہر نشاں جاتا رہے

جس میں ہو تیری رضا میری خوشی ایسی تو ہو

صادق دہلوی

ملنے کی ہے خوشی تو بچھڑنے کا ہے ملال

دل مطمئن بھی آپ سے ہے بے قرار بھی

پرنم الہ آبادی

تمنا دو دلوں کی ایک ہی معلوم ہوتی ہے

اب ان کی ہر خوشی اپنی خوشی معلوم ہوتی ہے

کامل شطاری

دہر فانی میں ہنسی کیسی خوشی کیا چیز ہے

رونے آئے تھے یہاں دو چار دن کو رو

سنجر غازیپوری

غم جاناں سے دل مانوس جب سے ہو گیا مجھ کو

ہنسی اچھی نہیں لگتی خوشی اچھی نہیں لگتی

پرنم الہ آبادی

ہوا عشق سے یہ ہمیں استفادہ مزے میں وہی ہے جو ہے بے ارادہ

انہیں کی خوشی میں مزیداریاں ہیں نہیں تو بڑا دکھ اٹھانا پڑےگا

کامل شطاری

وہ بحر حسن شاید باغ میں آوے گا اے احساںؔ

کہ فوارہ خوشی سے آج دو دو گز اچھلتا ہے

عبدالرحمٰن احسان دہلوی

وہ مجھ سے ملنے کو آئے ہیں میری موت کے بعد

خوشی بھی میرے لیے غم ہے کیا کیا جائے

پرنم الہ آبادی

میں جیا بھی دنیا میں اور جان بھی دے دی

یہ نہ کھل سکا لیکن آپ کی خوشی کیا تھی

سیماب اکبرآبادی

نہیں دیتا جو مے اچھا نہ دے تیری خوشی ساقی

پیالے کچھ ہمیشہ طاق پر رکھے نہیں رہتے

مضطر خیرآبادی

رات تھوڑی سی ہے بس جانے دے مل ہنس کر بول

ناخوشی تا بہ کجا صبح ہوئی جاتی ہے

میر محمد بیدار

خوشی ہے زاہد کی ورنہ ساقی خیال توبہ رہے گا کب تک

کہ تیرا رند خراب افقرؔ ولی نہیں پارسا نہیں ہے

افقر موہانی

خوشی ہے سب کو روز عید کی یاں

ہوئے ہیں مل کے باہم آشنا خوش

میر محمد بیدار

کہیں روشنی کہیں تیرگی جو کہیں خوشی تو کہیں غمی

تیری بزم میں ہمیں دخل کیا ترے اہتمام کی بات ہے

عزیز وارثی دہلوی

عید سے بھی کہیں بڑھ کر ہے خوشی عالم میں

جب سے مشہور ہوئی ہے خبر آمد یار

ابراہیم عاجزؔ

پہلے تو خون میرا بہایا خوشی خوشی

پھر کیا وہ خود ہی سوچے کہ پچھتا کے رہ گئے

حسرت موہانی

تیرے مزاج میں ایک دن بھی برہمی نہ ہوئی

خوشی کی بات تھی لیکن مجھے خوشی نہ ہوئی

عزیز وارثی دہلوی

حنا کی طرح اگر دسترس مجھے ہوتی

تو کس خوشی سے ترے پاؤں میں لگا کرتا

میر محمد بیدار

میں ہوں ایک عاشق بے نوا تو نواز اپنے پیام سے

یہ تری رضا پہ تری خوشی تو پکار لے کسی نام سے

فنا بلند شہری

جبین یار سے افشاں کی دیکھی ذرہ افشانی

خوشی کے پھول جھڑتے ہیں چراغ ماۂ انور سے

بحر لکھنوی

میری خوشی خوشی نہیں میرا الم الم نہیں

مجھ کو ہنسا گیا کوئی مجھ کو رلا گیا کوئی

قیصرؔ شاہ وارثی

خوشی سے ختم کر لے سختیاں قید فرنگ اپنی

کہ ہم آزاد ہیں بیگانۂ رنج دل آزاری

حسرت موہانی

بد مزاجی ناخوشی آزردگی کس واسطے

گر برے ہم ہیں تو ہو جئے اور سے جا آشنا

میر محمد بیدار

تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی

وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی

جگر مرادآبادی

آگ لگی وہ عشق کی سر سے میں پاؤں تک جلا

فرط خوشی سے دل مرا کہنے لگا جو ہو سو ہو

عبدالہادی کاوش

کچھ فکر تمہیں عقبیٰ کی نہیں احقرؔ یہ بڑی نادانی ہے

دنیا کی خوشی کیا ایذا کیا یہ حادث ہے وہ فانی ہے

احقر بہاری

بے خودی گر ہو خود تو آ کے ملے

اے خدا بے خودی عجب شے ہے

عبدالرحمٰن احسان دہلوی

جب آگ دھدکتی ہو اس پر مت چھیٹیو تیل خدا را تم

کیا دل کی خوشی کو پوچھو ہو اے یارو اک ناشاد ستی

غلام نقشبند سجادؔ

عیش وعشرت وصل وراحت سب خوشی میں ہیں شریک

بے کسی میں آہ کوئی پوچھنے والا نہیں

مرزا فدا علی شاہ منن

کدھر کی خوشی کہاں کی شادی

جب دل سے ہوس ہی سب اڑا دی

خواجہ میر اثر

زمانہ ہیچ ہے اپنی نظر میں

زمانے کی خوشی کیا اور غم کیا

عزیز وارثی دہلوی

شاد کے نام سے ہر رنج و خوشی ہو کے ریاضؔ

صدر اعظم کو شب و روز دعا دیتا ہے

ریاض خیرآبادی

خوشی سے چوٹ کھانے کا مزہ یا کیف جاں سوزی

کوئی جاں سوز پروانہ یا کوئی دل جلا جانے

بیخود سہر وردی

غم جاناں سے دل مانوس جب سے ہو گیا مجھ کو

ہنسی اچھی نہیں لگتی خوشی اچھی نہیں لگتی

پرنم الہ آبادی

خوشی سے وہ ہماری ہر خوشی پامال کر ڈالیں

جہاں تک ہے خوشی ان کی وہاں تک ہے خوشی اپنی

ذکی وارثی

بار اجل اٹھائے جو کوئی خوشی خوشی

طاقت یہ کس میں ہے تیرے بیمار کے سوا

غفور شاہ وارثی

خوشی سے پاؤں پھیلاتے ہیں کیا کیا کنج تربت میں

عجب لذت ہے ترے ہاتھ سے قاتل شہادت میں

کوثر خیرآبادی

ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرتؔ

اب آگے تیری خوشی ہے سرفراز کرے

حسرت موہانی

ہنسی کہاں مذاق کہاں دل لگی کہاں

وہ جوش ارتباط کہاں وہ خوشی کہاں

بانکے لال

گرچہ کیفیت خوشی میں اس کی ہوتی ہے دو چند

پر قیامت لطف رکھتی ہے یہ جھنجھلانے کی طرح

خواجہ رکن الدین عشقؔ

وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا

کس گھر میں خوشی ہوتی ہے ماتم نہیں ہوتا

ریاض خیرآبادی

ہماری تربت پہ تم جو آنا تو ساتھ اغیار کو نہ لانا

خوشی کے صدمے ہمیں نہ دینا ہمارے غم کی خوشی نہ کرنا

مضطر خیرآبادی

دل میں جگر میں آنکھوں میں رہیے خوشی سے آپ

پھر یہ نہ کہیے گا کوئی ملتا مکاں نہیں

کوثر خیرآبادی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

بولیے