Sufinama

انتظار پر اشعار

کہاں ممکن ہے کس سے انتظار یار ہو مجھ سا

رہے گی پھر بھی یوں ہی مثل نرگس آنکھ وا کس کی

آسی غازیپوری

الٰہی رنگ یہ کب تک رہے گا ہجر جاناں میں

کہ روز بے دلی گزرا تو شام انتظار آئی

حسرت موہانی

جب وہ آتے نہیں شب وعدہ

موت کا انتظار ہوتا ہے

پرنم الہ آبادی

کثرت امید بھی عیش آفریں ہونے لگی

انتظار یار بھی راحت فزا ہونے لگا

حسرت موہانی

آ کر وہ میری لاش پہ یہ کہہ کے رو دیے

تم سے ہوا نہ آج مرا انتظار بھی

پرنم الہ آبادی

نہ آئیں گے وہ حسرتؔ انتظار شوق میں یو نہیں

گزر جائیں گے ایام بہار آہستہ آہستہ

حسرت موہانی

اکثر پلٹ گئی ہے شب انتطار موت

مرنے نہ درد دل نے دیا تا سحر مجھے

افقر موہانی

ایک دن ایسا بھی ہوگا انتظار یار میں

نیند آ جائے گی دروازہ کھلا رہ جائے گا

پرنم الہ آبادی

جل ہی گیا فراق تو آتش سے ہجر کی

آنکھوں میں مری رہ نہ سکا یارو انتظار

خواجہ رکن الدین عشقؔ

جب نگاہیں اٹھ گئیں اللہ ری معراج شوق

دیکھتا کیا ہوں وہ جان انتظار آ ہی گیا

جگر مرادآبادی

جا کہے کوئے یار میں کوئی

مر گیا انتظار میں کوئی

احسن اللہ خاں بیان

حاضر ہے بزم یار میں سامان عیش سب

اب کس کا انتظار ہے اکبرؔ کہاں ہو تم

شاہ اکبر داناپوری

نہ آیا کیا سبب اب الگ رہا دل انتظار آخر

جہاں ہووے وہاں جا کر مجھنے ہونا نثار آخر

تراب علی دکنی

مے سے چلو بھر دے ساقی جام کا کیا انتظار

ابر آیا جھوم کر موقع نہیں تاخیر کا

عرش گیاوی

اجالا ہو تو ڈھونڈوں دل بھی پروانوں کی لاشوں میں

مری بربادیوں کو انتظار صبح محفل ہے

سیماب اکبرآبادی

خلوت انتظار میں اس کی

در و دیوار کا تماشا ہے

سراج اورنگ آبای

انتظار قاصد گم گشتہ نے مارا نصیرؔ

کس طرح اڑ جائیے کوچے میں اس کے پر لگا

شاہ نصیر

دن انتظار کا تو کٹا جس طرح کٹا

لیکن کسو طرح نہ کٹی رات رہ گئی

خواجہ میر اثر

اے قیامت آ بھی تیرا ہو رہا ہے انتظار

ان کے در پر لاش اک رکھی ہے کفنائی ہوئی

ریاض خیرآبادی

تیرے وعدوں کا اعتبار کسے

گو کہ ہو تاب انتظار کسے

خواجہ میر اثر

یہ حال کھلا نہ کچھ بھی عرفاںؔ

ہے تجھ کو یہ انتظار کس کا

عرفان اسلام پوری

کر قتل شوق سے میں تصدق ہوا ہوا

سرکار نہیں ہے فکر جو ہوا انتظار خاص

خواجہ رکن الدین عشقؔ

قیامت آ چکی دیدار حق ہوا سب کو

ہم اب تلک بھی ترا انتظار رکھتے ہیں

احسن اللہ خاں بیان

نہ رہا انتظار بھی اے یاس

ہم امید وصال رکھتے تھے

خواجہ میر اثر

دیکھو کوئے یار میں مت حضرت دل راہ اشک

انتظار قافلہ منزل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ

شاہ نصیر

مٹنے کا غم نہیں ہے بس اتنا ملال ہی

کیوں تیرا انتظار کیا ہائے کیا کیا

بہزاد لکھنوی

دکھائیے آج روئے زیبا اٹھائیے درمیاں سے پردہ

کہاں سے اب انتظار فردا یہی تو سنتے ہیں عمر بھر سے

احقر بہاری

وصل کا انتظار ہی اچھا

یہ تو مضطرؔ خدا کرے کہ نہ ہو

مضطر خیرآبادی

جب نگاہیں اٹھ گئیں اللہ ری معراج شوق

دیکھتا کیا ہوں وہ جان انتظار آ ہی گیا

جگر مرادآبادی

آ جائیو یار گھر سے جلدی

مت کشتۂ انتظار کیجو

میر محمد بیدار

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

بولیے