ترا وجود ہے جان بہار گلشن
تجھی سے نکہت ہر گل ہے یا غریب نواز
زخم دل ہو گئے پھر انکی عنایت سے ہرے
میرے گلشن میں پھر اک تازہ بہار آئی ہے
گل رویوں کے خیال نے گلشن بنا دیا
سینہ کبھی مدینہ کبھی کربلا ہوا
الٰہی بندھ رہی ہے آج گلشن میں ہوا کس کی
لیے پھرتی ہے خوشبو دم بدم باد صبا کس کی
جس دن سے بوئے زلف لے آئی ہے اپنے ساتھ
اس گلشن جہاں میں ہوا ہوں صبا پرست
آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا
اپنے اجڑے ہوئے گلشن کو بہت یاد کیا
جب وہ ہوتے ہیں صحن گلشن میں
موسم نو بہار ہوتا ہے
صبح نہیں بے وجہ جلائے لالے نے گلشن میں چراغ
دیکھ رخ گلنار صنم نکلا ہے وہ لالہ پھولوں کا
گلشن جنت کی کیا پروا ہے اے رضواں انہیں
ہیں جو مشتاق بہشت جاودان کوئے دوست
لگا دی آگ ان کے شعلۂ عارض نے گلشن میں
زر گل بن گئیں چنگاریاں پھولوں کے دامن میں
جب تک ایک حسیں مکیں تھا دل میں ہر سو پھول کھلے تھے
وہ اجڑا تو گلشن اجڑا اور ہوا آباد نہیں ہے
رشک گلشن ہو الٰہی یہ قفس
یہ صدا مرغ گرفتار کی ہے
ہر ذرہ اس کی منزل صحرا ہو یا ہو گلشن
کیوں بے نشاں رہے وہ تیرا جو بے نشاں ہے
مثل گل باہر گیا گلشن سے جب وہ گلعذار
اشک خونی سے میرا تن تر بہ تر ہونے لگا
چشم نرگس بن گئی ہے اشتیاق دید میں
کون کہتا ہے کہ گلشن میں ترا چرچا نہیں
گلشن عالم کی میں نے ڈالی ڈالی دیکھ لی
پھول تو اچھے ہیں سب لیکن وفا کی بو نہیں
ہرے کپڑے پہن کر پھر نہ جانا یار گلشن میں
گلوئے شاخ گل سے خون ٹپکے گا شہادت کا
اب دل کا ہے ویران چمن وہ گل ہیں کہاں کیسا گلشن
ٹھہرا ہے قفس ہی اپنا وطن صیاد مجھے آزاد نہ کر
رفتار یار کا اگر انداز بھول جائے
گلشن میں خاک اڑاتی نسیم سحر پھرے
سب تماشے آپ میں ہیں دیکھ لو اور چھوڑ دو
کوہ کی تفتیش بن کر فکر گلشن کی تلاش
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں
کوئی رشک گلستاں ہے تو کوئی غیرت گلشن
ہوئے کیا کیا حسیں گلچھرہ پیدا آب و گل سے
تجھ بن گلشن میں گر گئے ہم
جوں شبنم چشم تر گئے ہم
بہار آئی ہے گلشن میں وہی پھر رنگ محفل ہے
کسی جا خندۂ گل ہے کہیں شورعنادل ہے
یوں گلشن ہستی کی مالی نے بنا ڈالی
پھولوں سے جدا کلیاں کلیوں سے جدا ڈالی
کیوں کر نہ چلیں گلشن دنیا میں یہ لویں
ہو گئی ہے میاں آہ کی تاثیر ہوا پر
کب دماغ اتنا کہ کیجے جا کے گلگشت چمن
اور ہی گلزار اپنے دل کے ہے گلشن کے بیچ
غضب کی چال گلشن میں چلا ہے باغباں محسنؔ
اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ پامال صعوبت ہوں
سیر کر دے اب کہ گلشن بیں ہے ہنگام بہار
ہم اسیروں کی رہائی اب تو اے صیاد ہو
فریب رنگ و بوئے دہر مت کھا مرد عاقل ہو
سمجھ آتش کدہ اس گلشن شاداب دنیا کو
ترابؔ ہوتا ہے اشک باراں اپس میں توں بول راز داراں
ہر ایک گلشن میں نو بہاراں گھڑی میں کچھ ہور گھڑی میں کچھ ہیں
اے اسیران قفس آنے کو ہے فصل خزاں
چار دن میں اور گلشن کی ہوا ہو جائے گی
کچھ اس عالم میں وہ بے پردہ نکلے سیر گلشن کو
کہ نسریں اپنی خوشبو رنگ بھولی نسترن اپنا
اے بہار گلشن ناز و نزاکت ہر طرف
تیرے آنے سے ہوئی ہے اور بھی بستاں میں دھوم
یہ گلچیں نے کیوں پھول گلشن میں توڑا
کہ اس پر ہیں ٹوٹے عنا دل ہزاروں
جلوے سے ترے ہے کب خالی پھل پھول پھلی پتہ ڈالی
ہے رنگ ترا گلشن گلشن سبحان اللہ سبحان اللہ
رنگ پر کل تھا ابھی لالۂ گلشن کیسا
بے چراغ آج ہے ہر ایک نشیمن کیسا
اب اپنے تصور میں اڑا پھرتا ہے گلشن
تقدیر اسیری پر پرواز کہاں ہے
افسوس عدم سے آ کے کیا کیا ہم نے گلشن ہستی میں
جوں شبنم و گل رویا نہ ہنسا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
تم نہ جاؤ زینت گلشن تمہارے دم سے ہے
تم چلے جاؤ گے تو گلشن میں کیا رہ جائے گا
دیدۂ بینا و نابینا کے تئیں روشن کیا
یک نگہ میں گلخن ویراں کوں او گلشن کیا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere