مجھی کو دیکھ لیں اب تیرے دیکھنے والے
تو آئینہ ہے مرا تیرا آئینا ہوں میں
جسے دیکھا یہاں حیران دیکھا
یہ کیسا آئینہ خانہ بنایا
کر کے سنگھار آئے وہ ایسی ادا کے ساتھ
آئینہ ان کو دیکھ کر حیران ہو گیا
دل نوں سکل ہووے ہر طرفوں، تد پکڑے عین صفائی
تاں کجھ بنے آئینہ ہاشم، اتے سمجھے بھیت الٰہی
آپ اپنے دیکھنے کے واسطے
ہم کو آئینہ بنایا یار نے
زندگی ہے معصیت کا آئینہ
پھر بھی اس پر ناز کچھ ہے تو سہی
آپ دیکھا اس نے اپنے آپ کو
ہم کو آئینہ بنایا یار نے
جلوۂ ذات اے معاذ اللہ
تاب آئینۂ صفات گئی
تو نے اپنا جلوہ دکھانے کو جو نقاب منہ سے اٹھا دیا
وہیں حیرت بے خودی نے مجھے آئینہ سا دکھا دیا
مری حیرتؔ محبت ہو محبت آپ کی حیرتؔ
یہی آئینہ داری آخرش روز یقیں آئے
آرائش حسن آئینہ رخ کرتے ہو ہر دم
لینا ہے مگر دم تمہیں منظور کسی کا
آئینۂ دل کو صاف کر دیکھا
اس میں اصلاً نہیں قصور کیا
اک چہرے سے پیار کروں میں اک سے خوف لگے ہے مجھ کو
اک چہرہ اک آئینہ ہے اک چہرہ پتھر لگتا ہے
مجھ کو تاخیر کا شکوہ نہیں ہاں اور سنو
آئینہ تیرا ہے زلفیں تیری شانا تیرا
گہ یار بنا گاہ بنا صورت اغیار
اپنا ہی بنا آئینی اپنا ہی پرستار
دیکھیں خوش ہو کے نہ کیوں آپ تماشا اپنا
آئینہ اپنا ہے عکس اپنا ہے جلوہ اپنا
آئینہ خانہ بنا صورت وارث بیدمؔ
لطف نظارۂ سرکار مبارک باشد
تا آب نگردیم ز شرم ہستی
ما را ننمودند در آئینۂ ما
آئینہ رو کے سامنے ہم بن کے آئینہ
حیرانیوں کا ایک تماشہ کرینگے ہم
سوز غم دیکھ نہ برباد ہو حاصل میرا
دل کی تصویر ہے ہر آئینۂ دل میرا
کچھ افق ہے نور آگیں کچھ شفق ہے لال لال
ذرہ ذرہ آئینہ ہے حسن روئے خاک کا
حیرت عشق مری حسن کا آئینہ ہے
دیکھنے والے کہاں سے ہیں کہاں تک پہنچے
ہوتا نہ اگر اس کے تماشے میں تحیر
حیرت سے میں آئینۂ نمط دنگ نہ ہوتا
سمائے ہیں اپنے نگاہوں میں ایسے
جب آئینہ دیکھا ہے حیراں ہوئے ہیں
ہر شے کو میری خاطر ناشاد کے لیے
آئینۂ جمال بنا کر چلے گئے
جو دیکھا عکس آئینہ میں اپنا بولے جھنجھلا کر
ارے ہٹ کون ہے تو سامنے سے کیوں مقابل ہے
بے وفائی ان سیہ چشماں کی دیکھا جب ستی
مثل آئینہ ہو حیراں دل ہے سرگرداں مرا
میری ہستی ہے آئینہ تیرے رخ کی تجلی کا
زمانے پر عیاں تیری حقیقت ہوتی جاتی ہے
یہ بولا دیکھ کر آئینہ مجھ سے وہ میرا خودبیں
کہو خوش رو جہاں میں اور ہیں میرے مقابل کے
نہ ہوتا آئینہ ہرگز مقابل
تو اپنا حسن چمکایا تو ہوتا
آئینہ آب تموج سے بہا جاتا ہے
کہیے تصویر سے گرنا نہ کہیں دیکھ سنبھل
ہوا کیا پڑا آئینہ بیچ میں
یہ تھا کون کس سے لڑائی ہوئی
دل کہ مجسم آئینہ ساماں
اور وہ ظالم آئینہ دشمن
جلائے شوق سے آئینۂ تصویر خاطر میں
نمایاں ہو چلا روئے نگار آہستہ آہستہ
تمہارا آئینۂ دل ہے کچھ غبار آلود
تم اپنے آئینۂ دل کو تابدار کرو
یاس و حسرت کا ترے بعد آئینہ رہ جائے گا
جو بھی دیکھے گا مرا منہ دیکھتا رہ جائے گا
ایک عالم ابھی حیرت زدہ کر آیا تو
پھر اب اے آئینہ رخسار کہاں جاتا ہے
ہوا ہے ذوق آرائش کا پھر اس حسن آرا کو
کوئی دے دے اٹھا کر آئینہ دست سکندر میں
قلب مومن آئینہ ہے ذات مومن کا رضاؔ
دیکھ کر حیراں اسے کیوں عقل اسکندر نا ہو
آئینہ دکھایا تو کہا آئینہ رخ نے
آئینے کو آئینہ دکھایا نہیں جاتا
صورت نما ہو عشق ترا پھر کہاں، اگھر
آئینۂ جمال سراپا شکست ہو
دیکھ تیرے منہ کو کچھ آئینہ ہی حیراں نہیں
تجھ رخ روشن کی ہے مہر و مہ تاباں میں دھوم
وقت آرائیش جو کی آئینہ پر اس نے نظر
حسن خود کہنے لگا اس سے حسیں دیکھا نہیں
ساتھ میرا تیرا اے آئینہ رہتا تھا
وہ بھی دن یاد ہیں جب سامنے تو رہتا تھا
کرشما سازی حسن ازل ارے توبہ
مرا ہی آئینہ مجھ کو دکھا کے لوٹ لیا
تیری صورت کا جو آئینہ اسے پاتا ہوں میں
اپنے دل پر آپ کیا کیا ناز فرماتا ہوں میں
پئے تسکین نظر دیدۂ بینا کے لئے
مختلف روپ کا یہ ایک ہی آئینہ ہیں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere