Sufinama

آنکھ پر اشعار

میری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نور جمال تھا

کھلی آنکھ تو نا خبر رہی کہ وہ خواب تھا کہ خیال تھا

بہادر شاہ ظفر

ہے وجہ کوئی خاص مری آنکھ جو نم ہے

بس اتنا سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا کرم ہے

فنا بلند شہری

دل وہی دل ہے جو اللہ کا جلوہ دیکھے

آنکھ وہ آنکھ جو قدرت کا تماشا دیکھے

رضا وارثی

جان سے ہو گئے بدن خالی

جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا

خواجہ میر درد

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

کسی کام میں جو نہ آ سکی میں وہ ایک مشت غبار ہوں

مضطر خیرآبادی

سپنے میں آنکھ پیا سنگ لاگی

چونکی پڑی پھر سوئی نہ جاگی

شاہ تراب علی قلندر

شب وصل کیا مختصر ہو گئی

ذرا آنکھ جھپکی سحر ہو گئی

جگر مرادآبادی

جس آنکھ نے دیکھا ہے اس آنکھ کو دیکھوں

ہے اس کے سوا کیا تیرے دیدار کی صورت

واصف علی واصف

حجاب رخ یار تھے آپ ہی ہم

کھلی آنکھ جب کوئی پردا نہ دیکھا

خواجہ میر درد

آنکھ ملتے ہی کسی معشوق سے

پھر طبیعت کیا سنبھالی جائے گی

سنجر غازیپوری

وہ چھپ گئے تو آنکھ سے تارے نکل پڑے

دل گم ہوا تو اشک ہمارے نکل پڑے

نازاں شولا پوری

وہ آنکھ میرے لیے نم ہے کیا کیا جائے

اسے بھی آج مرا غم ہے کیا کیا جائے

پرنم الہ آبادی

لگا کر آنکھ اس جان جہاں سے

نہ ہوگا اب کسی سے آشنا دل

حسرت موہانی

اس آنکھ سے جس آنکھ نے مخمور دو عالم کئے

میری طرف بھی دیکھنا مولا علی مشکل کشا

اکبر وارثی میرٹھی

کربلا سامنے آتی جو وہ لاشے لے کر

آنکھ تو آنکھ ہے پتھر سے بھی رستا پانی

مظفر وارثی

بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی

آنکھ ان کی لڑی یوں مری آنکھ سے دیکھ کر یہ لڑائی مزا آ گیا

فنا بلند شہری

آنکھ کھول کے دیکھو تو سب ایک ذات سے گھیری ہے

جا سے نور ہوا ہے دن کو وا سے رات اندھیری ہے

کوی دلدار

کہیں ہے آنکھ عاشق کی کہیں دیدار جاناں ہے

بہار حسن تابان میں تو ہی تو ہے تو ہی تو ہے

چودھری دلّو رام

سییاں سنگ کس مورا لاگو نینوا

آنکھ لغت نہیں نیند پڑت نہیں

شاہ تراب علی قلندر

ہر آنکھ کی تل میں ہے خدائی کا تماشہ

ہر غنچہ میں گلشن ہے ہر اک ذرہ میں صحرا

امداد علی علوی

اپنا بنا کے اے صنم تم نے جو آنکھ پھیر لی

ایسا بجھا چراغ دل پھر یہ کبھی جلا نہیں

فنا بلند شہری

آنکھ اٹھائے کے دیکھت ناہیں

لاج بھرا شرمایا بنرا

شاہ تراب علی قلندر

آہ جس دن سے آنکھ تجھ سے لگی

دل پہ ہر روز اک نیا غم ہے

میر محمد بیدار

آنکھ ان کی پھر آلودہ نم دیکھ رہا ہوں

خود پر انہیں مائل بہ کرم دیکھ رہا ہوں

حامدؔ وارثی گجراتی

آمنہ بی بی کے دلارے

عبداللہ کی آنکھ کے تارے

سنجر غازیپوری

ازل سے ابد تک کبھی آنکھ دل کی

نہ جھپکے جھپکنے نہ پائے تو کیا ہو

ذہین شاہ تاجی

کھول آنکھ اپنی دیکھ عیاں حق کا نور ہے

ہر برگ و ہر شجر میں اسی کا ظہور ہے

عطا حسین فانی

گر آنکھ تیری ہے دیکھ تو ہر چیز کے اندر ظاہر ہے

محبوب تیرا ٹک سوچ تو تو ہر حال سے تیرے ماہر ہے

کوی دلدار

تہمت بد نظری آنکھ چرانے کا گلا

بہس کیا چھڑ گئی تھی شرۂ اشارات کی رات

کیفی حیدرآبادی

گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا

نہ گیا ہم سے آنکھ بھر دیکھا

میر محمد بیدار

اس در فیض سے امید بندھی رہتی ہے

اور مدینہ کی طرف آنکھ لگی رہتی ہے

سیماب اکبرآبادی

من میری من یہ چاؤ

آنکھ بچولا جیوڑا آ ہنس جاوے باٹ

قاضی محمود دریائی

لینے والے اپنی آنکھوں سے لگا لیتے ہیں اسے

آنکھ کا تارہ ہے صندل حضرت مخدوم کا

شیخ محمد ندیمی

سدھ کب رہت موہن کے دیکھت

چت کہاں ٹھہرت آنکھ لگاے

شاہ کاظم قلندر

تو اسی کی آنکھ کا نور ہے تو اسی کے دل کا سرور ہے

کہ جسے بلند نظر ملی کہ جسے شعور ولا ملا

کامل شطاری

یوں آنکھ سے آنکھ میں ملا ہے

اتنا تو مرا دل و جگر ہے

خواجہ میر اثر

ڈوب جانے کی ہدایت جو کبھی موج نے دی

آنکھ دینے کو حباب لب دریا نکلا

مضطر خیرآبادی

اس سے پہلے آنکھ کی پتلی کی کیا اوقات تھی

تیرے نقطہ دیتے ہی کیا کیا نظر آنے لگا

مضطر خیرآبادی

ولیکن ہے ایک آنکھ کا کور وہ

طبیعت وہ دھرتا ہے شیطان کی

ضعیفی

یُومِنُونَ بِالَغیب کوں آنکھ موند من پیل

سیکھو گرو سوں یہ جگت آنکھ مچونی کھیل

برکت اللہ پیمی

شری ورشبھانو کشوری رے لوگو

موری تو آنکھ تراب سو لاگی

شاہ تراب علی قلندر

ہاں یہ سرشاریاں جوانی کی

آنکھ جھپکی ہی تھی کہ رات گئی

جگر مرادآبادی

آنکھ کھول دکھتے کاظمؔ کاں

اٹھ گرے لاگو کنور کنہائی

شاہ کاظم قلندر

کیا مری آنکھ عدم بیچ لگی تھی اے چرخ

کیا اس خواب سے تو نے مجھے بیدار عبث

احسن اللہ خاں بیان

طوفان تنک سمن کی بو میں

سمدر ایک آنکھ کے انجو میں

قاضی محمود بحری

کاہے تو موسے آنکھ چراوت

سن مکھ تورے میں آپے نہ ہونگی

شاہ تراب علی قلندر

ملاکر آنکھ دل لینا ہے بائیں ہاتھ کا کرتب

سوا اس کے بھرے ہیں بے شمار اسرار آنکھوں میں

کیفی حیدرآبادی

ایسے نٹھر سے کام پڑو ہے

آنکھ لگائے میں جی سو گئی

شاہ تراب علی قلندر

نہیں آنکھ جلوہ کش سحر یہ ہے ظلمتوں کا اثر مگر

کئی آفتاب غروب ہیں مرے غم کی شام دراز میں

سیماب اکبرآبادی

آنکھ جو دیکھ ہو گئے مغرور

دل پکارا ہنوز دلی دور

خواجہ رکن الدین عشقؔ

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

بولیے