اکمل حیدرآبادی کے صوفیانہ مضامین
قوالی گیارہویں شریف اور حضرت غوث پاک کے چلوں پر
خواجہ معین الدین چشتی کے چلوں پر قوالی کے رواج اور اس کی مقبولیت کے بعد ہندوستان میں حضرت غوث پاک کے چلوں پر بھی قوالی ہونے لگی، حالاں کہ آپ سماع اور قوالی جیسی چیزوں کو اپنے لیے سخت ناپسند فرماتے تھے، آج تک بغداد میں آپ کے مزار پر قوالی کی سخت ممانعت
تذکرہ اسمٰعیل آزاد قوال
گیارہویں صدی عیسوی سے موجودہ بیسویں صدی تک قوالی نے کئی منزلیں طے کیں لیکن یہ فن مذہبی اجارہ داروں کے تسلط سے اس وقت مکمل طور پر آزاد ہوا جب 1940ء سے 1950ء کے درمیان اسمٰعیل آزاد نے اس فن میں عوامی دلچسپیوں کے روایات شکن اضافے کیے، اسمٰعیل آزاد سے
قوالی میں تصوف کی ابتدا اور غیر مسلموں کی دلچسپی اور نعت کی ابتدا
عربی سے فارسی میں منتقل ہونے کے ساتھ ہی قوالی کے مضامین تصوف میں ڈھل گیے۔ تصوف ایک ایسا موضوع ہے جس میں ساری خلق کو خالق کی جانب رجوع ہونے کا پیغام دیا جاتا ہے، اس میں مذہب کی تخصیص نہیں ہوتی، تصوف کی اس لا محدودیت کے باعث بے شمار غیر مسلم بھی قوالی
سماع کے آداب و موانع سے قوالی کا انحراف
حضرت جنید بغدادی کے سماع سے آخری عمر میں کنارہ کشی اختیار کر لینے کے بعد سماع کے موئیدین میں حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی کو سب پر فوقیت حاصل ہے، آپ نے نہ صرف سماع کی تائید فرمائی بلکہ اس کے آداب و موانع بھی مقر فرمائے جن کی تفصیل آپ کی تصانیف احیاؤالعلوم
قوالی کے آرگنائزرس
فنون لطیفہ کے ہر ’’شو‘‘ کے لیے کسی نہ کسی تجارتی یا سماجی تنظیم کی سخت ضرورت ہوتی ہے لیکن موجودہ عہد میں’’ آرگنائزہ رس‘‘ کی ایک ایسی جماعت وجود میں آئی ہے جو بغیر کسی ادارے یا تنظیم کے فرداً فرداً کمرشل شوز کا اہتمام کرتی ہے اور سالہا سال سے ان ہی سلسلوں
قوالی میں تالی جزو لازم ہے
مرد کی تالی شریعتِ اسلام میں منع ہے، چنانچہ نماز میں امام کی بھول پر عورتوں کو تو نرم تالی کی اجازت ہے لیکن مردوں کو سبحان اللہ کہنے کا حکم ہے، علاوہ اس کے قرآن کی آیتوں میں بھی تالی کو سخت موجب عذاب قرار دیا گیا ہے۔ ’’وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِندَ
قوالی کا مجموعی تاثر
قوالی ایک ٹولی کا گانا ہے اور ٹولی چند افراد کے اتحاد کا نام ہندوستان میں ٹولیاں بنا کر بھجن اور لوک گیت گانے کی روایت بہت پرانی ہے، اس میں پہلے تو گانے والے خود آپس میں متحد ہوتے ہیں، ان کے بعد سننے والے بھی اس ٹولی سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں، مختلف افراد
قول، قلبانہ، نقش، گل، ترانہ، چھند اور رنگ
قول، قلبانہ، نقش گل، ترانہ، چھند اور رنگ قوالی کے مختلف روپ ہیں جن میں قول و قلبانہ ان کی طرزیں عربی کلام پر، نقش و گل کی فارسی کلام پر اور چھند درنگ کی طرزیں اردو ہندی کلام پر مشتمل ہیں، ترانہ اپنی جگہ ایک رنگ اور مکمل طرز ہے جو شاعری یا نثری کلام پر
قوالی کے قدیم و جدید مقابلے
قوالی کے مقابلے : قوالی کے فنکاروں میں مقابلوں کا رواج بہت پرانا ہے لیکن زمانہ قدیم میں قوالی کے فنکار اسی قسم کی مقابلہ بازی کا مظاہرہ کرتے تھے جیسے موسیقی کے اور فنکار موسیقی کی محفل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی صلاحیتوں
قوالی اور صحافت
صحافت میں مذہبیات کے لیے بہت کم گنجائش ہے اور بدنصیبی سے قوالی عموماً مذہبی کالم میں شمارکی گئی، اس لیے صحافت نے اسے اتنا ہی موقع دیا جتنا کہ ایک مذہبی موضوع کو دیا جا سکتا تھا، قوالی کی فنی، تفریحی و قومی افادیت صدیوں چشم صحافت سے پوشیدہ رہی لیکن شکر
تذکرہ پدم شری عزیز احمد خاں وارثی قوال
فنکار اپنے ملک کی تہذیب و تمدن کا نمائندہ ہوتا ہے اور تہذیب و تمدن نام ہے کسی ملک کی صدیوں پرانی روایات کا، اگر چہ کہ ترقی پسند افراد روایات سے چمٹے رہنے کے بجائے نئی سمتیں متعین کر کے اپنے آپ کو عصر حاضر سے ہم آہنگ کرنے میں اپنی بقا محسوس کرتے ہیں
موجد قوالی
ساری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ قوالی حضرت امیر خسروؔ کی ایجاد ہے، عہد خسروؔ سے پہلے جہاں کہیں اردو کتابوں میں قوالی کا لفظ ملتا ہے وہ کتابیں امیر خسروؔ کے عہد کے بعد عربی و فارسی سے ترجمہ کی ہوئی ہیں، جن میں عربی لفظ ’’سماع‘‘ کا اردو ترجمہ ’’قوالی‘‘
ناٹک اور ڈراموں میں قوالی کی ابتدا
ڈرامہ یونانی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنیٰ ہیں ’’کرکے دکھانا ‘‘ یعنی لکھے ہوئے واقعات و تاثرات کو اسٹیج پر ادا کارانہ طور پر کر دکھانا، ڈرامہ کے لیے اردو زبان میں سب سے جامع لفظ ’’تمثیل‘‘ موجود ہے لیکن رائج ہوا ’’ناٹک‘‘ کا لفظ ناٹک فنونِ لطیفہ کی کل اضاف
سماع اور قوالی کا مقصد ایجاد الگ الگ
اہلِ سماع نے کے ارشاد کے مطابق شریعت طریقت سے جدا ہے اور نہ طریقت شریعت سے جدا لیکن ان کا کہنا یہ ہے کہ شریعت کے متعین کردہ طریقۂ عبادت کے تحت انسان جسمانی ظاہری حد تک رجوعِ عبادت ہوتا ہے اور طریقت میں ظاہری و جسمانی حرکات و سکنات کی قید سے بے نیاز
ریڈیو اور قوالی
ہندوستان میں ریڈیو بیسویں صدی کے ابتدائی دہوں میں پہنچا، یہی وہ زمانہ تھا جب کہ قوالی مذہبی چولا اتار کر تفریحی روپ دھار رہی تھی لیکن ریڈیو نے اس کے بدلتے ہوئے روپ کو ابتداً پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھا، ریڈیو چوں کہ حکومت کے زیرِ اقتدار تھا اور حکومت فنونِ
قوالی میں آدابِ سماع سے انحراف کا سبب
امیر خسروؔ نے اپنی ایجاد کردہ قوالی ہیں جو آدابِ سماع کو خاص اہمیت نہ دی تو یہ ان کے رویہ کی کوئی پہلی اور واحد مثال نہیں ہے، وہ ایک پایہ کے دیندار ہونے کے باوجود دنیا کے ایک مانے ہوئے موسیقار بھی تھے، انہوں نے بے شمار راگ تال ٹھیکے اور ساز ایجاد
موجدِ قوالی
مشاہیر اہل قلم اس بات پر متفق ہیں کہ قوالی کی طرز امیر خسروؔ کی ایجاد ہے عہدِ خسروؔ سے پہلے جہاں کہیں قوالی کا ذکر آیا ہے وہ قوالی نہیں بلکہ ’’سماع‘‘ تھا لیکن قوالی کی ایجاد کے بعد سماع کا ترجمہ لفظِ قوالی سے کرایا گیا، جس کے باعث قوالی کے سلسلہ میں
قوالی کی ابتدائی زبان اور نثر میں ترانے کے بول
قوالی کی ابتدائی زبان عربی ہے جو نثر پر مشتمل تھی۔ نثر کلامِ موزوں نہیں اور موسیقی متقاضی ہے کلام موزوں کی موسیقی کی اس انگ کے تحت خسروؔ نے قوالی کی نثر میں ابتدا ہی سے’’ ترانے‘‘ کے بول جوڑ دیے تاکہ راگنی کی شکل بھی نہ بگڑے اور اقوال بھی جوں کے توں
قوالی کا عہدِ ایجاد اور سماجی پس منظر
موجدِ قوالی حضرت امیر خسروؔ کا عہدہ ابتدائے اسلام اور موجودہ عہد کے ٹھیک درمیان کا عہد ہے اور قوالی کا عہد ایجاد امیر خسروؔ کے عہد حیات (۱۲۵۳ ء تا ۱۳۲۵ء) کے ٹھیک درمیان کا عہد ہے جب کہ ہندوستان پر خلجی خاندان کا اقتدار تھا اور اس ملک میں ویدانت و بھگتی
قوالی کی ایجاد و ارتقا
کسی فن کی ایجاد و ارتقا کے بارے میں قلم اٹھانا اس وقت آسان ہوتا ہے جب کہ ہم اس کی ایجاد و ارتقا کے عینی شاہد ہوں یا اس کے مشاہدین تک ہماری رسائی ہو یا کم از کم اتنا ہو کہ اس فن پر کچھ معلوماتی کتا بیں ہمیں میسر ہوں، قوالی کا فن ان تینوں چیزوں سے تہی
قوالی اور موسیقی
قوالی کی بنیاد موسیقی پر نہیں بلکہ شاعری پر ہے یعنی الفاظ و معانی پر لیکن قوالی چوں کہ موسیقی کے نہ بن جانے کے صدیوں بعد کی ایجاد ہے، اس لیے اس میں امیر خسرو نے موسیقی کے بنیادی اصولوں کا بھی خاص لحاظ رکھا، جس کی بنا پر عام عاشقانِ موسیقی اس سے بغل گیر
قوالی میں طبلہ شامل
قول، قلبانہ، نقش، گل اور ترانہ قوالی کی مختلف طرزیں ہیں اور یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ طبلہ قول اور ترانہ کی ضروریات کے تحت ہی ایجاد کیا گیا، چنانچہ اس ضمن میں ڈاکٹر ظہیرالدین مدنی کا بیان ہے کہ ’’خسروؔ کے ایجاد کردہ طریقہ موسیقی خیال، قول اور ترانہ وغیرہ
قوالی کی قسمیں
قوالی کو اگر عام طور پر تقسیم کیا جائے تو دو بڑی قسموں میں تقسیم ہو سکتی ہے، پہلی قسم قدیم اور دوسری جدید جسے ہم مجلسی قوالی اور عوامی قوالی بھی کہہ سکتے ہیں۔ قدیم قوالی : مجلسی قوالی یعنی قدیم قوالی حمد و شنار، تصوف، نعت، اقوالِ رسول، مدحِ انبیا، اقوالِ
قوالی میں اقوالِ رسول اور اقوالِ خسروؔ کا استعمال
قوالی کے ابتدائی مضامین ’’اقوالِ رسول‘‘ پر مشتمل ہیں یعنی اُن کلماتِ متبرکہ پر جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین مبارک سے عربی نثر میں ادا ہوئے، ان میں بھی خصوصیت کے ساتھ وہ اقوال منتخب کیے جاتے تھے جن میں حضرت علی مرتضیٰ کی تعریف ہوتی تھی، حضرت
فلموں میں قوالی کے فنکار
فلموں میں جب قوالی کے آئیٹم پسند کیے جانے لگے تو ان میں دنیائے قوالی سے مشہور فنکاروں کو پیش کیا جانے لگا جن میں اسمٰعیل آزاد، عبدالرب چاؤش، شنکر شمبھو، یوسف آزاد، جانی بابو اور عزیز نازاں کو زیادہ مقبولیت ملی لیکن اداکارانہ صلاحیت صرف یوسف آزاد اور
قوالی کے اہم مراکز
دنیا بھر میں قوالی کے اہم مراکز : قوالی کی طرز آج دنیا بھر میں مقبول ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان اس کے خاص مراکز ہیں، ان دو ممالک کے علاوہ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی کثیر آبادی کے باعث اب انگلینڈ، کویت، دوبئی اور ساؤتھ افریقہ جیسے
قوالی اور حضرت نظام الدین اؤلیا کا موقف
صوفیائے کرام تمام انسانوں میں اللہ کے وجود کے قائل ہیں، لہٰذا وہ بلا تفریقِ مدارج و مذاہب تمام انسانوں سے محبت کی تعلیم دیتے ہیں، وہ ساری مخلوق کو اللہ کا مظہر مانتے ہیں، وہ ذرہ ذرہ میں خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں، اس یقین کی بنیاد قرآنِ پاک کی حسبِ
قوالی کا مقصد ایجاد
قوالی کے تمام متعلقات اور تمام اجزار مرکب میں قومی یکجہتی کی خصوصیات کا بدرجۂ اتم موجود ہونا اور اس کے مجموعی تاثرات میں انسانی اتحاد کی خصوصیات کا پایا جانا اور اس کے موجد کے دل کا قومی یکجہتی کے جذبات سے پر ہونا، یہ سب ایسے عوامل ہیں جن کی بنا پر
قوالی اور امیر خسروؔ کا موقف
موجد قوالی حضرت امیر خسروؔ کی تمام تر ایجادات و تصنیفات کا مطالعہ ہمیں اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ ان کی ہر کوشش میں وحدت انسانیت کے جذبات کار فرما ہیں، وہ ہمیشہ ہر مذہب، ہر اعتقاد اور ہر مکتبِ خیال کے انسانوں کو یکجا کرنے کی جدو جہد میں لگے رہے، لہٰذا
قوالی کے اسٹیج پروگرام اور ٹکٹ شوز
فلموں کی جگمگاہٹ کے آگے تھیٹر کا چراغ جل نہ سکا اور اسٹیج کے جتنے مقبول و با صلاحیت فنکار تھے سب کے سب فلم انڈسٹری میں آ گیے، اسٹیج کی جیتی جاگتی دنیا ایک طویل عرصے کے لیے بے روح ہو گئی لیکن جب فلم کے فنکاروں کی مقبولیت معراج کو پہنچ گئی تو عوام انہیں
قوالی میں ستار کا استعمال
مشہور ہندوستانی ساز ستار امیر خسروؔ کی ایجاد ہے، ظاہر ہے یہ ساز امیر خسروؔ سے پہلے والے سماع میں شامل نہ رہا ہوگا لیکن خسروؔ کی قوالی میں یہ ساز شامل رہا، معروف ستار نواز استاد عبدالحلیم جعفر خاں اپنے مضمون ’’امیر خسروؔ اور ہندوستانی موسیقی‘‘ میں لکھتے
قوالی کی پہلی محفل
حضرت امیر خسروؔ نے جب قوالی کی طرزِ ایجاد کی تو سب سے پہلے اسے حضرت نظام الدین اؤلیا کے دربار میں پیش کیا، یہیں اس کی ابتدا ہوئی، آپ اس کی آپ کے دربار سے پہلے جہاں کہیں اس قسم کی محفلوں کا ذکر ملتا ہے وہ ’’سماع‘‘ کی محفلیں تھیں قوالی کی نہیں، حضرت نظام
قوالی کی زبان
قوالی کا تیسرا اہم جزو مرکب ہے زبان، اپنی ضروریات کے پیشِ نظر ہم موسیقی میں جو مضامین سموتے ہیں اور مضامین میں جو جذبات پنہاں ہوتے ہیں ان کی خاطر خواہ تاثیر کے لیے زبان کا انتخاب انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس انتخاب میں سب سے پہلے اس بات کو پیش نظر رکھنا
فارسی گرہ بندی کی ابتدا، فارسی کا منظوم کلام
’’اللہ ہو‘‘ کی تکرار اور حضرت علی کی تعریف ہی کے دور میں قوالی میں فارسی گرہ بندی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، گرہ سے مراد ایسے اشعار یا مصرع پہنچانا جو زیرِ تکرار مصرعے یا لفظ کے معنی و مفہوم کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اس کے پیدا کردہ اثر کو ظاہر کرنا ہے۔ عربی
قوالی کے ابتدائی ساز، راگ تال اور ٹھیکے
قوالی کے ابتدائی سازوں کی تفصیل کسی ایک مضمون یا کتاب سے دستیاب نہیں ہوتی، البتہ مختلف مضامین میں مختلف سازوں کے حوالے ملتے ہیں جنہیں یکجا کر کے لکھیں تو دف، یک تارا، ڈھول، طبلہ، بانسری ستار اور تالی کے نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ حضرت امیر خسرو نے قوالی
قوالی اور گنپتی
گنپتی مہاراشٹرا کا ایک ایسا تہوار ہے جسے یہاں کے ہندو باشندے ہر سال چوتھی چترتھی میں انتہائی جوش و خروش کے ساتھ مناتے تھے لیکن اب اس کی تقاریب میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی شریک ہونے لگے ہیں، خصوصیت کے ساتھ اب مسلم نوجوان زیادہ حصہ لینے لگے ہیں، مہاراشٹرا
سماع اور قوالی کا فرق
سماع کے لفظی و مجازی معنیٰ : عربی زبان کا ایک عام لفظ ہے جس کے لفظی معنی ہیں سننا، اسی مناسبت سے لفظ سماع کی تشکیل ہوئی جس کے مجازی معنیٰ راگ کا سننا لیے جاتے ہیں۔ سماع کے اصطلاحی معنیٰ : قرآنی اصطلاحات میں سماع سے مراد آیاتِ قرآن کا سننا ہے اور صوفیا
قوالی میں خواتین سے مقابلے
بیسویں صدی کے چھٹے دہائی میں جب پہلی خاتون قوال شکیلہ بانو بھوپالی نے قوالی کے میدان میں قدم رکھا تو مقابلوں کی دنیا میں ایک ہلچل سی مچ گئی، مردوں اور عورتوں کا پہلا مقابلہ شکیلہ بانو بھوپالی اور اسمٰعیل آزاد کے درمیان ۱۹۵۷ء میں ہوا، حسن و عشق کی یہ
قوالی کے گراموفون ریکارڈر
تھامس ایڈیسن کی ایجاد گراموفون اور ریکارڈ سازی کی ابتدا ہندوستان میں انیسویں صدی کے آخری دور میں اس وقت ہوئی جب دلی میں ’’انڈین گراموفون اینڈ ٹائپ رائٹر کمپنی‘‘ کے نام سے ایک ادارے کی بنا پڑی، اس کے بعد بیسویں صدی میں کولمبیا، ٹوئن اور ہز ماسٹرس وائس
قوالی میں تشریح کا اضافہ
قوالی کے بیشتر سامعین اردو کے مشکل الفاظ کو سمجھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں، جس سے شعر کے مفہوم تک پہنچنے کی گنجائش نہیں نکلتی اور اس تنگی سے لطف شعر ضائع ہو جاتا ہے، سامعین کی اس کمی کو دور کرنے کے لیے شکیلہ بانو بھوپالی نے ۱۹۵۶ء میں تشریح کی بنا ڈالی،
تذکرہ جانی بابو قوال
جانی با بو ایک سریلی، میٹھی اور پرکشش آواز کے مالک ہیں، ان کی طبیعت میں موسیقی ایسے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، جیسے پیمانوں میں لبالب شراب کہ جسے ذرا سی جنبش ہوئی اور چھلک پڑی، یہ وہ نعمت ہے جو دوسرے قوالوں کو کم ہی میسر ہوئی، جانی اس نعمت کی قدر بھی کرتے
قوالی کا عہدِ ایجاد اور مقصدِ ایجاد
قوالی کی ایجاد امیر خسروؔ کے عہدِ حیات ۱۲۵۳ء تا۱۳۲۵ء کے ٹھیک درمیان کا عہد ہے، جب کہ ہندوستان پر خلجی خاندان کا اقتدار تھا۔ امیر خسروؔ کی خاموشی کے باعث قوالی کے مقصدِ ایجاد کی بحث بے حد پیچیدہ ہوگئی، وہ ایک سچے فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ مذہب دوست بھی
معیار سماع بتدریج قوالی کے عہدِ ایجاد تک
سماع دوسری صدی ہجری کی ایجاد ہے، حضرت جنید بغدادی نے اسے تیسری صدی ہجری میں اختیار کیا، عوارف المعارف میں درج ہے کہ ’’کہتے ہیں حضرت جنید بغدادی نے ہمارا سننا چھوڑ دیا تھا، لوگوں نے کہا آپ پہلے سماع سنتے تھے، آپ نے فرمایا کس کے ساتھ؟ وہ کہنے لگے آپ اپنے
قوالی میں ترانہ کے بول
امیر خسروؔ کی قوالی میں ترانہ کے بول شامل ہیں، آپ نے قوالی میں سب سے پہلے جو قول پیش کیا وہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب ذیل قول بتایا جاتا ہے۔ ’’من كنت مولىٰ فعلی مولاه‘‘ ترجمہ : میں جس کا مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔ یہ قول حضرت
اسٹیج پر قوالی اپنی انفرادیت کے ساتھ
ہندوستان میں ناٹک کمپنیوں کی دو قسمیں تھیں، اول وہ جو ڈرامے پیش کیا کرتی تھیں اور دوئم وہ جو صرف کھیل تماشے ناچ گانا اور چھوٹے چھوٹے مزاحیہ خاکے پیش کرتی تھیں، دوسری قسم کی کمپنیوں نے ۱۸۹۰ ء کے لگ بھگ قوالی کے فنکاروں کو بھی اپنی ٹیم میں مستقلاً شریک
خواتین کی قوالی سے دلچسپی اور قوالی میں عاشقانہ مضامین کی ابتدا
حضرت غوث پاک کی نیاز کے ساتھ قوالی کی گھریلو محفلوں نے مسلم خواتین میں بے حد مقبولیت حاصل کر لی، چنانچہ اکثر مسلم گھرانوں میں شادی، بیاہ اور کسی عام خوشی کے موقعوں پر بھی قوالی کی محفلیں منعقد کی جانے لگیں، یہ سلسلہ قوالی کی عام مقبولیت میں بے حد مددگار
جدید قوالی پر جوشؔ ملیح آبادی، فراقؔ گورکھپوری اور کیفیؔ اعظمی کا اثر
مشاعروں میں شاعر کی کامیابی کا دار و مدار اچھے کلام کے ساتھ اچھے ترنم یا تحت اللفظ کے اچھے اندازِ ادا پر ہوتا ہے، تحت اللفظ پڑھنے والوں میں جوشؔ ملیح آبادی، فراقؔ گورکھپوری اور کیفیؔ اعظمی کا انداز عوام میں بے پناہ مقبول ہوا۔ جوشؔ ملیح آبادی نے ’’تحت‘‘
ٹیلی ویژن پر قوالی کی ابتدا
ہندوستان میں ٹی وی بیسویں صدی کے چھٹے دہائی میں آیا، یہاں سب سے پہلے اس کی ابتدا دہلی سے ہوئی، دہلی کے بعد ساتویں دہائی میں بمبئی میں بھی اس کا اسٹیشن قائم ہو گیا، دہلی اسٹیشن سیاسی و سرکاری سرگرمیوں کی تشہیر کا ذریعہ بنا رہا، یہاں فنون لطیفہ کو خاطر
قوالی مزاروں اور چلوں پر
حضرت نظام الدین اؤلیا کی وفات کے بعد آپ کے مزار پر بھی قوالی کا سلسلہ جاری رہا اور ان محفلوں میں وہ غیر مسلم بھی شامل رہے جو حضرت نظام الدین اؤلیا سے عقیدت رکھتے تھے۔ صوفیا کے دربار اور اؤلیا کے مزاروں کے بعد قوالی کی محفلیں چلوں پر بھی منعقد کی جانے
سماع اور قوالی کے اولین سرپرست
شیخ الاسلام حضرت امام تیمیہ کا ارشاد ہے کہ ابو نصر فارابی ابنِ راوندی اور ابنِ سینا ہی نے ابتداً لوگوں کو سماع کی طرف رجوع کی دعوت دی، اس ارشاد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہی لوگ سماع کے اولین سرپرست رہے، فارابی فنِ موسیقی میں بے حد ماہر تھا، ابنِ ہمدان
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere