می خواستم کہ روزہ گشایم نماز شام
دلچسپ معلومات
ترجمہ: عمارہ علی
می خواستم کہ روزہ گشایم نماز شام
سر بر زد آفتاب جہاں سوز من ز بام
میں چاہتا تھا کہ شام کے وقت روزہ کھولوں میرا چمکتا ہوا سورج بام پر آ گیا
با قامتیں کہ سرو سہی گر ببیندش
یک پا ستادہ تا بہ قیامت کند قیام
ایسی قد وقامت کے ساتھ کہ اگر سر اسکو دیکھ لے تو قیامت تک ایک پاؤں پر کھڑا رہے
برداشت پردہ از رخ و چوں روز عرضہ کرد
بر من نماز صبح بہ وقت نماز شام
اس نے چہرے سے پردہ ہٹایا تو جیسے دن نکل آیا مجھ پر شام کے وقت صبح کی نماز واجب ہو گئی۔
کردہ سلام و سر بہ نہادم بہ روئے خاک
ہر چند سجدہ سہو بود از پے سلام
میں نے سلام کیا اور زمین پر سجدہ ریز ہو گئی، اگرچہ سلام کے بعد سجدہ سہو کیا جاتا ہے۔
اے عید روزگار نہاں کن رخ چو ماہ
بر عاشقان خویش مکن روزہ را حرام
اے زمانہ کی عید اپنا چاند جیسا چہرہ چھپا لو اور اپنے عاشقوں پر روزہ حرام نہ کرو۔
من بے قرار ماندہ و تو برقرار خویش
درویش روزہ بستہ و حلوا ہنوز خام
میں بے قرار رہا اور تم اپنے وعدے پر قائم رہے درویش نے دروازہ بند کر لیا اور حلوہ ابھی بنا نہیں۔
روزہ مدار چوں لب تو پر ز شکر است
آزاد کن غلامے اے خسروتؔ غلام
تمہارے ہونٹ شکر سے بھرے ہوئے ہیں تم روزہ نہ رکھو غلام آزاد کرو خسروؔ تمہارا غلام ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.