دلے کہ غیب نمایست و جام جم دارد
ز خاتمے کہ دمے گم شود چہ غم دارد
وہ دل جو غیب نما ہے اور جامِ جمشید رکھتا ہے
اس انگوٹھی سے جو اس سے گم ہو جائے کیا غم کرتا ہے؟
بخط و خال گدایاں مدہ خزینۂ دل
بہ دست شاہ و شئے دہ کہ محترم دارد
دل کا خزانہ فقیروں کے خط وخال کو نہ دے
بادشاہ جیسے کے ہاتھ میں دے کہ عزت سے رکھے
دلم کہ لاف تجرد زدے کنوں صد شغل
بہ بوئے زلف تو با باد صبح دم دارد
میرا وہ دل جو بے تعلقی کی ڈینگیں مارتا تھا اب سو شغل
تیری زلف کی خوشبو کی وجہ سے صبح کی ہوا کے ساتھ رکھتا ہے
نہ ہر درخت تحمل کند جفائے خزاں
غلام ہمت سروم کہ ایں قدم دارد
ہر درخت خزاں کے ظلم کو برداشت نہیں کرسکتا
میں سرو کی ہمت کا سو غلام ہوں کہ یہ ثابت قدمی رکھتا ہے
رسید موسم آں کز طرب چو نرگس مست
نہد بہ پائے قدح ہر کہ شش درم دارد
اس کا موسم آگیا کہ خوشی سے مست نرگس کی طرح
پیالے کے قدموں پر ڈال دے جو بھی چھ درہم رکھے
زر از بہائے مے اکنوں چو گل دریغ نہ دار
کہ عقل کل بصدت عیب متہم دارد
اب پھول کی طرح ہونے کو شراب کی قیمت ادا کرنے سےنہ بچا
کہ عقلِ کل تجھے سو عیب سے متہم کرے
مراد دل از کہ پرسم کہ نیست دلدارے
کہ جلوۂ نظر و شیوۂ کرم دارد
میں دل کی مراد کس سے چاہوں کوئی دلدار نہیں ہے
جو نگاہ کا جلوہ اور کرم کی عادت رکھتا ہو
ز سر غیب کس آگاہ نیست قصہ مخواں
کدام محرم دل رہ دریں حرم دارد
غیب کے راز سے کوئی باخبر نہیں ہے قصے نہ سنا
دل کے کون سے محرم کو اس حرم کا راستہ ملا ہے
ز جیب خرقۂ حافظؔ چہ طرف بہ تواں بست
کہ ما صمد طلبیدیم و او صنم دارد
حافظؔ کے چوغے کے گریباں سے کیا علاقہ رکھا جا سکتا ہے
اس لیے کہ ہم نے صمد طلب کیا اور وہ صنم رکھتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.