ازل سے گو حسینوں کی محبت میری فطرت تھی
ازل سے گو حسینوں کی محبت میری فطرت تھی
مگر فطرت ابھی ناواقف سوز محبت تھی
دل معصوم کو میرے ہر اک کافر سے الفت تھی
نہ تھا تکلیف کا احساس کیا اچھی طبیعت تھی
مری شرکت موقر تھی ہر ایک معصوم صحبت میں
مسلم میری بے لوثی حسینوں کی جماعت میں
مری عصمت کی قسمیں معتبر اہل محبت میں
مری پر سوز آہیں منتظر باب اجابت میں
سمجھتا تھا نہ کچھ معنی میں دزدیدہ نگاہوں سے
گماں کرتا نہ تھا کچھ بھی کسی کی سرد آہوں سے
نہ تھا واقف لگاوٹ کی میں ان پیچیدہ راہوں سے
نہ الجھا تھا کسی کافر کی مژگانی سپاہوں سے
نہ دیکھا تھا کسی کا ہنس کے زلفیں کھول کر آنا
نہ دیکھا تھا کسی کا آہ بھر کر جان سے جانا
نہ تھا معلوم کیا ہوتا ہے دل لے کر مکر جانا
نہ تھا معلوم ہو جاتا ہے کیسے کوئی دیوانا
نہ تھا معلوم دل جاتا ہے اک چشم عنایت میں
نہ تھا معلوم الفت کی سزا ملتی ہے فرقت میں
نہ تھا معلوم دل کو عیب لگ جاتا ہے الفت میں
نظر بد نام ہو جاتی ہے پاکیزہ محبت میں
- کتاب : میکدہ (Pg. 41)
- Author : میکشؔ اکبرآبادی
- مطبع : آگرہ اخبار، آگرہ (1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.