دو قدم چلنا ہے بھاری، شوقِ طیبہ دل میں ہے
دو قدم چلنا ہے بھاری، شوقِ طیبہ دل میں ہے
میں تو رستے میں پڑا ہوں، دل پڑا منزل میں ہے
دونوں جلتے ہیں مگر دوری حضوری کا ہے فرق
میں سیہ خانے میں اپنے شمع اس محفل میں ہے
دل تڑپ کر ہو گیا پہلو سے باہر بھی تو کیا
شکر تو یہ ہے ابھی دل کی تمنا دل میں ہے
کھول سکتا ہی نہیں اس کو کوئی اُن کے سوا
یہ بڑی خوبی ہمارے عقدۂ مشکل میں ہے
سہل انگاری ہی سے اے کاش فرما دیں حضور
تیری مشکل کوئی مشکل ہے تو کس مشکل میں ہے
ان کی صورت کے تصور سے کہو، ٹھہرے ذرا
جان تھوڑی سی ابھی باقی تنِ بسمل میں ہے
ضعف مجھ سے پوچھتا ہے ہر قدم پر راہ میں
کیا خمیرِ خاکِ طیبہ تیری آب و گل میں ہے؟
تہہ کو پہنچے وہ جو بحرِ معرفت میں ڈوب جائے
دست و پا کیوں مارئیے، رکھا ہی کیا ساحل میں ہے
اب تو اتنی بھی نہیں ذوقِ حضوری میں خبر
ان کی محفل میں ہے دل یا اُن کی محفل دل میں ہے
امتثالِ امر ہے، افکار میں فکرِ غزل
طرح کچھ مشکل نہیں، حافظؔ بڑی مشکل میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.