Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

تعالی اللہ ذاتِ مصطفیٰ کا حسن لاثانی

اقبال احمد خان سہیل

تعالی اللہ ذاتِ مصطفیٰ کا حسن لاثانی

اقبال احمد خان سہیل

MORE BYاقبال احمد خان سہیل

    تعالی اللہ ذاتِ مصطفیٰ کا حسن لاثانی

    کہ یک جا جمع ہیں جس میں تمام اوصافِ امکانی

    دعائے یونسی، خلقِ خلیلی، صبرِ ایوبی

    جلال موسوی، زہدِ مسیحی، حسنِ کنعانی

    نہیں مہر درخشاں اس کے در پر جبہ سائی سے

    چمک اٹھا ہے چرخِ چار میں کا داغِ پیشانی

    خدا جانے خود اس سرکار کا کیا مرتبہ ہوگا

    غلامِ بارگہ جس کے کہیں ما اعظم شانی

    تعالیٰ اللہ چہ می زیبد بفرقش تاج سلطانی

    کہ موز در گہش را می رسد ناز سلیمانی

    شہنشاہِ سریر قاب قوسین احمدِ مرسل

    شبِ اسریٰ میں جس کا فرشِ رہ تھا کاخِ کیوانی

    وہ جسم پاک خود سرچتا قدم پیکر تھا نورانی

    تو پھر معراج میں کا بحث روحانی و جسمانی

    رجب کی سبت ہفتم بارہواں سالِ نبوت تھا

    کہ بخشا خلوت آرائے ازل نے فخر مہمانی

    حریمِ ام ہانی میں حضور آرام فرماتے

    درِ دولت پہ قدسی و ملک تھے محو دربانی

    وہ چشمِ نرگسیں تھیں بند لیکن چشمِ دل وا تھی

    سرہانے طالعِ بیدار کرتا تھا مگس رانی

    ادب سے آگے جبریل امیں نے یہ گزارش کی

    کریں سرکار بزمِ نور تک تشریف ارزانی

    سنی روح القدس سے جب طلب بزمِ حضوری کی

    اٹھے اور دی براقِ پاک پر دادِ سبک رانی

    حرم سے چل کے اول مسجد اقصیٰ میں منزل کی

    وہاں سے جلوہ گاہ قدس تک جانے کی پھر ٹھانی

    براقِ برق پیکر لے چلا یوں ذات انور کو

    فضا میں تیر جائے جس طرح بجلی کی تابانی

    حضور اس طرح گزری گنبد مینائے گردوں سے

    نظر جس طرح شیشے سے گزر جائے بآسانی

    ملائک اور رسل صف بستہ استقبال کو آئے

    اٹھا افلاک میں ہر سمت شور تہنیت خوانی

    سرِ رہ ہر قدم پر ذوقِ نظارہ کی تسکین کو

    حقائق کا ترا کم تھا، مناظر کی فراوانی

    کھلی آنکھوں سے دیکھی محرمِ سرِ حقیقت نے

    جزائے محسن و قانت، سزائے مذنب و جانی

    نظر سے عالم ناسوت کے سارے حجاب اٹھے

    برائے العین کی سیرِ بہارستان رضوانی

    رُمیصا زوجۂ بو طلحہ کی تقدیر پر کیا کہنا

    کہ خود دیکھا نبی نے ان کوفی روح دریحانی

    سنی سرکار نے جنت میں آوازِ خرام ان کی

    بلال پاک کے طالع کی اللہ رے درخشانی

    بڑھے آگے تو وسطِ ساحتِ فردوس میں دیکھا

    بلند و پرشکوہ و دلکشا اک قصرِ لا ثانی

    وہ نزحت جس کا ہر گوشہ ریاضِ خلد کا حاصل

    وہ رفعت جس کا ہر زینہ حریفِ کاخ کیوانی

    وہ شفاف و شفق گوں رنگ جیسے حل ہو کوثر میں

    تباثیرِ سحر، سیم قمر، یاقوتِ رمانی

    چمن میں اشک شبنم کی جگہ در نجف غلطاں

    روش پر سنگ ریزوں کے عوض لعلِ درخشانی

    محاسن کے توازن میں مثالِ عدل فاروقی

    مناظر کے تناسب میں جمال ماہِ کنعانی

    قوائم اس کے عزمِ انبیا کی طرح مستحکم

    دروبام اس کے قلب اصفیا کی طرح نورانی

    یہ ایواں دیکھتے ہی آپ نے حیرت سے فرمایا

    ہے کس کے واسطے یہ اہتمامِ جلوہ سامانی

    فرشتوں نے کہا فاروق کی دولت سرا ہے یہ

    یہ قصر اس کا ہے طالب جس کے ہیں مطلوب یزدانی

    شہید اور منصب صدیفیت کے اولیں وارث

    امیر اور مسندِ ختم الرسل کے جانشیں ثانی

    یہاں سے پھر بڑھی سر در تو وہ جلوے نظر آئے

    کہ اجمالاً بھی کچھ لکھیے تو اک دفتر ہو طولانی

    غرض ملکوت کا ہر گوشہ چھانا اور جہاں پہنچے

    نظر کے سامنے آتی گئیں آیات ربانی

    براق و جبرئیل آخر رکے سدرہ کی منزل پر

    کہ تھی یہ منتہائے سرحدِ اقلیم امکانی

    یہاں سے لے چلیں پھر آپ کو موجیں تجلی کی

    وہ رف رف ہو کہ انوارِ ازل کا جوش فیضانی

    جوارِ عرش میں دیکھا یہاں صدیقِ اکبر کو

    تماشائے جمالِ لم یزل میں محو حیرانی

    سوادِ لا مکاں تک رک گیا رف رف کہ اس کو بھی

    کہاں اس خلوتِ وحدت میں اذنِ گرم جولانی

    کسی نے لے لیا خود بڑھ کے آغوش محبت میں

    ہوا ملکِ قدم خلوت سرائے حسن امکانی

    ملا خلعت سلامِ بارگاہ بے نیازی کا

    نبی نے جب تحیاتِ ادب کی نذر گزرائی

    یہاں بھی رحمت عالم نہ بھولے اپنی امت کو

    ہوا ہر یئندہ صالح شریکِ لطفِ ربانی

    ملا اس فیض کے صدقے میں بہر امتِ عاصی

    نویدِ صفو، فرمانِ کرم، منشور غفرانی

    بجز ذات مطہر یہ شرف کس کو ہوا حاصل

    بجز صدیقِ اکبر یہ حقیقت کس نے پہچانی

    خرد عاجز، نظر خیرہ، زباں کج مج بیاں قاصر

    زمینِ نعت میں کیا دیجیے دادِ سخن دانی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے