Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

بہارستان ہستی کے لیے دور شباب آیا

اقبال احمد خان سہیل

بہارستان ہستی کے لیے دور شباب آیا

اقبال احمد خان سہیل

MORE BYاقبال احمد خان سہیل

    بہارستان ہستی کے لیے دور شباب آیا

    رگ فطرت میں ریعان نمو کا اضطراب آیا

    نظام آفرینش کو پیام انقلاب آیا

    فضائے کن فکاں پرچم ختمی مآب آیا

    شہنشاہ دو عالم مہبط ام الکتاب آیا

    وہ موج بے قراری اٹھی ہے عمانِ تجلی سے

    زمانہ جگمگا اٹھا ہے فیضان تجلی سے

    شبستان جہاں روشن ہوئی شانِ تجلی سے

    ہوئی ظلمت گریزاں جوش طوفان تجلی سے

    رسالت کے افق پر نور حق کا آفتاب آیا

    شعاع سرمدی جس کی جبین پاک پر رقصاں

    جمال ایزوی جس کے فروع حسن سے رقصاں

    فضائے قدس کا ہر جلوہ جس کی نور پر قربان

    بسیط فاک کا ہر ذرہ جس کا تابع فرماں

    وہ سلطان الامم آیا وہ فعتار الرقاب آیا

    وہ آئینہ دکھایا جس نے عکس روئے جاناں کو

    نمایاں کر دیا جس نے فروغ حسن پنہاں کو

    عطا کی دولت نظارہ جس نے دیدہ جاناں کو

    چراغاں کر دیا جس نے تجلی گاہِ امکاں کو

    وہ جلوہ اب جمال احمدی بے نقاب آیا

    معارف کا خیاباں تازہ جس کی رشحہ باری سے

    نکارم کا چمن شاداب جس کی آبیاری سے

    شناسا جس نے عالم کو کیا توحید باری سے

    دلوں کی کھتیاں سرسبز جس کے فیض جاری سے

    وہ دریائے کرم آیا وہ رحمت کا سحاب آیا

    نہ مانے کوئی بد باطن گرا اپنا تو ایماں ہے

    کہ اس کی شانِ عالی ماورائے فہم انساں ہے

    ملک بھی اس عروج قدر پو ششدر ہے حیراں ہے

    در دولت سرا کی گو ابھی زنجیر جنساں ہے

    مگر وہ جام کے بزم لا مکان سے باریاب آیا

    سجایا جائے گا دربار جب سرکار وحدت کا

    تو عالم دیدنی ہوگا گنہگاران امت کا

    یہ غل ہوگا وہ آیا کوکبہ شاہ رسالت کا

    بھرم کھلنے کو ہے اب تابش مہر قیامت کا

    لوائے حمد لے کر شافع یوم الحساب آیا

    اگر فانوس ہے وہ جسم اطہر نور وحدت کا

    تو ہے صدیق اکبر آئینہ شمع رسالت کا

    یہ ہے فیض تقریب یہ کرشمہ ہے معیت کا

    جدا کس طرح رہتا سایہ اس کے سرد قامت کا

    وہ آیا اور صدیق امین بھی ہمرکاب آیا

    نئی شان تجلی ہے فروغ دینِ بیضا میں

    قیامت آنے والی ہے مگر باطل کی دنیا میں

    عجب کیا زلزلہ آئے اگر ایوان کسریٰ میں

    ابھی سے لرزش پیہم ہے بنیاد کلیسا میں

    وہ فاروقی علم بن کر دعائے مستجاب آیا

    سر اہل وفا کیوں کر نہ اس کے سامنے ہو خم

    حیا جس کی ہے حلم مصطفیٰ کا مظہر اعظم

    وہ عثمان ابن عفاں یعنی ختن سید عالم

    کہ جس کی ذات تھی دو نوحہ ہائے نور کی رنگم

    حیا جس کی صفت آئی غنی جس کا خطاب آیا

    وہ شیر بیشۂ حق چار عین عصر خلافت کا

    در خیبر ہے شاہد جس کے بازوئے شجاعت کا

    نہیں احساس پیکاں ولولہ یہ ہے عبادت کا

    وہ حارس باغ ملت کا وہ خازن کنز حکمت کا

    در شہر معارف وہ علی بو تراب آیا

    مأخذ :
    • کتاب : گلدستۂ نعت (Pg. 41)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے