Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

کرے تارِ شعاعی لاکھ اپنی سعی امکانی

اقبال احمد خان سہیل

کرے تارِ شعاعی لاکھ اپنی سعی امکانی

اقبال احمد خان سہیل

MORE BYاقبال احمد خان سہیل

    کرے تارِ شعاعی لاکھ اپنی سعی امکانی

    رفو ہوتا نہیں اب صبح کا چاک گریبانی

    وہی سمجھیں گے جو واقف ہیں اسرار محبت سے

    کہ یکساں جاں گسل ہیں ذوق وصل و درد ہجرانی

    ابھی تک کہہ رہا ہے ذرہ ذرہ وشت ایمن کا

    قیامت سے، قیامت جلوۂ جاناں کی عریانی

    ادھر دوشیزہ کرنوں کا نکلنا سمت مشرق سے

    ادھر بزم جہاں سے رخصت شمع شبستانی!

    ادھر صبحِ گریباں چاک کا راہِ عدم لینا

    ادھر خورشید عالم تا سب کا آغاز رخشانی

    کبھی پھولوں کے جھرمٹ میں شعاعوں کی نظر بازی

    کبھی خود جلوۂ خود سے گاؤں کی چاک دامانی

    کہیں دوشِ صبا پر رقص کرنا نکہت گل کا

    کہیں شاخ نشمین پر عنا دل کی حدی خوانی

    ادھر غنچوں کے لب پر درد یا فتاح جاری ہے

    ادھر محوِ اقامت ہے قطارِ سرد بستانی

    ادھر سبزے کا جاگ اٹھنا خمارِ خواب انوشیں سے

    اُدھر باد سحر سے زلفِ سنبل کی پریشانی

    کہیں قبل از صبوحی میکشوں کی مشق خمیازہ

    کہیں بعد از نواذل زاہدوں کی سجد گردانی

    صبا کے گد گدائے سے ادھر کلیوں کا ہنس پڑنا

    اُدھر شبنم سے پھولوں کی عرق آلودہ پیشانی

    ادھر شبنم کی ہستی کا فنا فی النور ہو جانا

    اُدھر گل کا صبا سے ادّعائے پاک دامانی

    بجا ہے صبح دم گر چشم نرگس ہے خمار آگیں

    چمن میں رات بھر کی ہے زرِ گل کی نگہبانی

    رگِ گل نے بچھا رکھا ہے ہر سو دامِ نظارہ

    عبث ہے گر کرے مرغِ نگہ سعیِ پر افشانی

    یہ صبح و شام ہے کیا چشم عبرت بیں اگر واہو

    تو اک درس بسیرت ہے سراپا بزم امکانی

    چمن پیرائے کن صدقے تری نیرنگ سازی کے

    لب ہر غنچہ پر ہے کل یومٍ ھو فی شان

    وہ تابستان کے بعد ابرِ سیہ کا جوشِ تردستی

    وہ آغازِ بہار اور رخصت فصلِ زمستانی

    کسی کے خندہ دنداں نما کا کھنچ گیا نقشہ

    لبِ گل برگ پر شبنم نے کی جب گوہر افشانی

    مأخذ :
    • کتاب : گلدستۂ نعت (Pg. 33)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے