Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

آنکھیں جو ہیں وحشت زدہ، ڈر دل میں بسا ہے

التفات امجدی

آنکھیں جو ہیں وحشت زدہ، ڈر دل میں بسا ہے

التفات امجدی

MORE BYالتفات امجدی

    دلچسپ معلومات

    تضمین بر عرضِ حال بہ جنابِ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم مصنفۂ الطاف حسین حالیؔ۔

    آنکھیں جو ہیں وحشت زدہ، ڈر دل میں بسا ہے

    ماحول جنوں خیز ہے، گرم اتنی ہوا ہے

    حق یہ ہے کہ حق حلقۂ باطل میں گھرا ہے

    ’’اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے

    امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے‘‘

    رحمت کی گھٹا اٹھی تھی ہر کوہ و دمن سے

    کلمے کی صدا گونجی تھی دھرتی سے گگن سے

    مسحور ہوئیں قومیں مرے شیریں سخن سے

    ’’جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے

    پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے‘‘

    تھے پُرکشش اعمال جو کردار تھا اچھا

    تھا فرش سے تا عرش مرے دین کا شہرا

    اور شرق سے تا غرب اک اسلام کا چرچا

    ’’جس دین کے مدعو تھے کبھی سیزر و کسریٰ

    خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے‘‘

    روشن تھی نگاہوں میں اک اک آیتِ قرآں

    قربان تھا قرآن کی عظمت پہ مسلماں

    اسلام پہ نازاں تھا ہر اک صاحبِ ایماں

    ’’وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں

    اب اس کی مجالس میں نہ بتّی نہ دِیا ہے‘‘

    کرتا رہا اسلام سبھی مشکلیں آساں

    عابد کی عبادت بھی تھی فردوس بداماں

    محفوظ تھا روشن تھا ہر اک شخص کا ایماں

    ’’جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں

    اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے‘‘

    ہونٹوں پہ مچلتے تھے وہ مذہب کے ترانے

    آیا تھا جو انسان کو انسان بنانے

    دامن میں لیے نعمت و رحمت کے خزانے

    ’’جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے

    اس دین میں خود تفرقہ اب آکے پڑا ہے‘‘

    جس دین نے ایماں کے دیے دل میں جلائے

    جس دین نے پھیلائے کڑی دھوپ میں سائے

    جس دین نے نفرت کے سبھی نقش مٹائے

    ’’جس دین نے غیروں کے تھے دل آکے ملائے

    اس دین میں خود بھائی سے اب بھائی جدا ہے‘‘

    دن رات رہِ راست پہ جو محوِ سفر تھا

    دیندار وہ دنیا کے لیے امن کا گھر تھا

    بے لوث کی خدمت کا زمانے پہ اثر تھا

    ’’جو دین کہ ہمدرد بنی نوعِ بشر تھا

    اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے‘‘

    معراجِ شریعت بھی تھی ایماں کی ادا بھی

    آوازِ صداقت بھی تھی رحمت کی فضا بھی

    فرمانِ محمد بھی تھا فرمانِ خدا بھی

    ’’جس دین کا تھا فقر بھی اکسیر غنا بھی

    اس دین میں اب فقر ہے باقی نہ غنا ہے‘‘

    جس دین نے تلقین کی یاں! صبر و رضا کی

    جس دین نے تعلیم دی دنیا کو حیا کی

    جس دین کے ہر پھول میں خوشبو تھی وفا کی

    ’’جو دین کہ گودوں میں پلا تھا حکما کی

    وہ عرصۂ تیغِ جہلا و سفہا ہے‘‘

    اندازِ نصیحت سے سب ادیان تھے مغلوب

    گفتار کی شوکت سے سب ادیان تھے مغلوب

    کردار کی عظمت سے سب ادیان تھے مغلوب

    ’’جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب

    اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے‘‘

    تھا حق کا طلب گار تو باطل کا منافی

    توحیدِ امم کے لیے دنیا میں تھا کافی

    ہر ایک مرض کے لیے جو دین تھا شافی

    ’’ہے دین ترا اب بھی وہی چشمۂ صافی

    دین داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے‘‘

    جو فکر خطیبوں کی ہے وہ فکر ہے الجھی

    اندازِ بیاں تلخ ہے تقریر میں سختی

    لہجے میں نظر آتی نہیں علم کی نرمی

    ’’عالم ہے سو بے عقل ہے جاہل ہے سو وحشی

    منعم ہے سو مغرور ہے مفلس سو گدا ہے‘‘

    نے فکر ہے فردا کی نہ ہے کچھ غمِ امروز

    نے انجمنِ پند، نہ بزمِ سبق آموز

    واں خوف کا ماحول ہے یاں حسرتِ دل سوز

    ’’یاں راگ ہے دن رات تو واں رنگ شب و روز

    یہ مجلسِ اعیاں ہے وہ بزمِ شرفا ہے‘‘

    بچوں کو سبق کون دے نخوت ہے بڑوں میں

    شیخی ہے، تکبر ہے رعونت ہے بڑوں میں

    کردار ہے شفاف نہ سیرت ہے بڑوں میں

    ’’چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں

    پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے‘‘

    شیرینی زبانوں میں نہ باتوں میں اثر ہے

    محروم نئے دور میں خوبی سے بشر ہے

    مثلِ صدفِ چاک کہاں اس میں گہر ہے

    ’’دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے

    اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے‘‘

    بے علم کا چہرہ نظر آتا ہے سدا فق

    گو علم و ہنر سیکھنا ہر شخص کا ہے حق

    گردانتے ہیں خود کو معلم ہی یہ احمق

    ’’ہے دین کی دولت سے بہا، علم سے رونق

    بے دولت و علم اس میں نہ رونق نہ بہا ہے‘‘

    ہے علم کی پونجی سے ہی انسان تونگر

    آتا ہے نظر علم سے رخسار منور

    کمتر کو بھی تعلیم بنا دیتی ہے برتر

    ’’شاہد ہے اگر دین تو علم اس کا ہے زیور

    زیور ہے اگر علم تو مال اس کی جلا ہے‘‘

    چھِن جاتی ہے جس قوم سے ایمان کی دولت

    اور لوگوں کے دل میں کرے گھر بغض و عداوت

    اوجھل ہو نگاہوں سے جب اسلاف کی عظمت

    ’’جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت

    اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے‘‘

    ذہنوں میں جلا ہے نہ دلوں میں ہے صفائی

    اچھائی ہے معدوم تو ظاہر ہے برائی

    مل جل کے نہیں رہتے ہیں اب بھائی سے بھائی

    ’’گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی

    پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے‘‘

    ایمان کا ہر کام بھی مٹ جائے نہ آخر

    تعمیر کا پیغام بھی مٹ جائے نہ آخر

    اور شوکتِ اسلام بھی مٹ جائے نہ آخر

    ’’ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر

    مدت سے اے دورِ زماں میٹ رہا ہے‘‘

    کردار بھی مفقود ہے سیرت بھی ہے پامال

    اب یاد نہیں لوگوں کو اسلاف کے اعمال

    اسلام نظر آتا ہے اس دور میں بے حال

    ’’جس قصر کا تھا سر بہ فلک گنبد اقبال

    ادبار کی اب گونج رہی اس میں صدا ہے‘‘

    تھے آشنا ساحل سے نہ منجدھار سے ہشیار

    بربادیٔ ملت کے نظر آئے نہ آثار

    غفلت کے حسیں خواب میں سوئے تھے نگہ دار

    ’’بیڑا تھا نہ جو باد مخالف سے خبردار

    جو چلتی ہے اب چلتی خلاف اس کے ہوا ہے‘‘

    تھا پھیل گیا چار سو قرآن کا پیغام

    ہر سمت تھا انوارِ محمد کا کرم عام

    روشن تھی ہر اک صبح تو پُرنور تھی ہر شام

    ’’وہ روشنیٔ بام و درِ کشورِ اسلام

    یاد آج تلک جس کی زمانے کو ضیاہے‘‘

    کیوں بڑھتا نہیں حق کی طرف کوئی دماغ آج

    شاہین کے بچے ہوئے ہیں کرگس و زاغ آج

    کیوں پھول کے موسم میں بھی بے رنگ ہے باغ آج

    ’’روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چراغ آج

    بجھنے کو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے‘‘

    نفرت نہ دلوں میں تھی نہ احساسِ من و تو

    وادی میں تھے آمادۂ رَم دین کے آہو

    آتی تھی بیاباں سے بھی ایمان کی خوشبو

    ’’عشرت کدے آباد تھے جس قوم کے ہر سو

    اس قوم کا اک ایک گھر اب بزمِ عزا ہے‘‘

    تخریب کا سودا نظر آتا ہے سروں میں

    جینے کا بھی احساس نہیں راہ بروں میں

    پرواز کی قوت ہی نہیں ان کے پروں میں

    ’’چائوش تھے للکارتے جن رہ گذروں میں

    دن رات بلند ان میں فقیروں کی صدا ہے‘‘

    جس قوم کے جذبات میں ایماں کی چمک تھی

    پاکیزگیٔ عزم کی چہرے پہ دمک تھی

    حق گوئی کے پھولوں میں تقدس کی مہک تھی

    ’’وہ قوم کہ آفاق میں جو سر بفلک تھی

    وہ یاد میں اسلاف کی اب روبہ قضا ہے‘‘

    تعظیم جو ہر حال میں کرتی تھی حرم کی

    جس نے نہ جبیں سامنے اشرار کے خم کی

    لو شمع محبت کی حوادث میں نہ کم کی

    ’’جو قوم کہ مالک تھی علوم اور حکم کی

    اب علم کا واں نام نہ حکمت کا پتا ہے‘‘

    میں کیسے کہوں ہوتے ہیں محسوس وہ کیا کیا

    ممکن نہیں الفاظ میں احساس کو لانا

    بس اس سے زیادہ انھیں میں نے نہیں سمجھا

    ’’کھوج ان کے کمالات کا لگتا ہے اب اتنا

    گم دشت میں ایک قافلہ بے طبل و درا ہے‘‘

    حق بات زباں پر کوئی لائے نہیں بنتی

    اسلاف کی جاگیر بچائے نہیں بنتی

    غفلت میں ہے یہ قوم جگائے نہیں بنتی

    ’’بگڑی ہے کچھ ایسی کہ بنائے نہیں بنتی

    ہے اس سے یہ ظاہر کہ یہی حکمِ قضا ہے

    تھی رات محبت سے بھری دن تھے وفا کے

    آتے نہ تھے جھونکے کبھی مغرور ہوا کے

    ہو جائے نہ لایق یہ مرا جسم سزا کے

    ’’تھی آس تو تھا خوف بھی ہمراہ رجا کے

    اب خوف ہے مدت سے دلوں میں نہ رجا ہے‘‘

    آتی ہی نہیں یاد اسے منزلِ لاہوت

    کردار سیہ دیکھ کے ہر شخص ہے مبہوت

    ہے سر پہ سوار اب ہوس و حرص کا اک بھوت

    ’’جو کچھ ہیں وہ سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت

    شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت کا گلا ہے‘‘

    احباب نے بھی پھیرلی ہیں چشمِ عنایت

    ہے زلفِ پریشان کے مانند یہ قسمت

    اس سمت تو اب بھول کے آتی نہیں راحت

    ’’دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت

    سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے‘‘

    تقریر سے ظاہر ہے عجب ترشی زباں کی

    کچھ اور ہی ہوتی ہے ادا پیرِ مغاں کی

    حالت ہے کہاں اچھی مرے دل کے جہاں کی

    ’’کی زیب بدن سب نے ہی پوشاک کتاں کی

    اور برف میں ڈوبی ہوئی کشور کی ہوا ہے‘‘

    گلشن میں نظر آتا نہیں رنگِ بہاراں

    کیوں حال زبوں پر نہ خزاں ہو مرے گریاں

    انسان کے خوں کا ہی پیاسا ہوا انساں

    ’’درکار ہیں یاں معرکے میں جوشن و خفتاں

    اور دوش پہ یاروں کے وہی کہنہ ردا ہے‘‘

    احساس بھی زخمی ہے تحمل بھی ہے گھائل

    کیا سوئے سفر ذہن مسافر کا ہو مائل

    منزل پہ پہنچنے کا ہوا جذبہ ہی زائل

    ’’دریائے پُر آشوب ہے اک راہ میں حائل

    اور بیٹھ کے گھڑنائو پہ یاں قصدِ ثنا ہے‘‘

    اک جام نہیں دیتا کوئی پیرِ مغاں مفت

    بے زر کے کوئی چیز بھی ملتی ہے کہاں مفت

    کیسے کوئی دے سکتا ہے کھانا بھی وہاں مفت

    ’’ملتی نہیں اک بوند بھی پانی کی جہاں مفت

    واں قافلہ سب گھر سے تہی دست چلا ہے‘‘

    صدیاں یوں ہی گزریں کئی گزرے ہیں زمانے

    دن رات سبھی دیکھتے ہیں خواب سہانے

    وہ دور ہے باقی نہ وہ باقی ہیں ٹھکانے

    ’’یاں نکلے ہیں سودے کو درم لے کے پرانے

    اور سکہ رواں شہر میں مدت سے نیا ہے‘‘

    ہر گام پہ اب صرف تباہی کے ہیں ساماں

    سیلاب کی زد سے یہاں بچنا نہیں آساں

    اس سمت بڑھے آتے ہیں آلام کے طوفاں

    ’’فریاد ہے اے کشتیٔ امت کے نگہباں

    بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے‘‘

    کب تک سہیں زحمت بَاَبِیْ اَنْتَ وَ اُمِّیْ

    اک چشمِ عنایت بَاَبِیْ اَنْتَ وَ اُمِّیْ

    چمکا دے تو قسمتبَاَبِیْ اَنْتَ وَ اُمِّیْ

    ’’اے چشمۂ رحمت بَاَبِیْ اَنْتَ وَ اُمِّیْ

    دنیا پہ ترا لطف سدا عام رہا ہے‘‘

    اندازِ ستم اہلِ جہاں نے یہ دکھایا

    معیار تمدن کا بہر طور گرایا

    تخریب کے ہاتھوں سے گلا حق کا دبایا

    ’’جس قوم نے گھر اور وطن تجھ سے چھڑا یا

    جب تو نے کیا، نیک سلوک اس سے کیا ہے‘‘

    نادار کے احساس کو ہی جانا نہ سمجھا

    ہر سنگِ ستم سینۂ آئینہ پہ مارا

    جن لوگوں نے دل اہلِ محبت کا دکھایا

    ’’صدمہ درِ دنداں کو ترے جن سے کہ پہنچا

    کی ان کے لیے تونے بھلائی کی دعا ہے‘‘

    ہر بات سنی تو نے مصیبت کی، دکھوں کی

    امداد کی ہر حال میں آلام زدوں کی

    دیوار بھی گرنے نہ دی مفلس کے گھروں کی

    ’’کی تونے خطا عفو ہے ان کینہ کشوں کی

    کھانے میں جنھوں نے کہ تجھے زہر دیا ہے‘‘

    بخشا دلِ غم دیدہ کے ہونٹوں کو تبسم

    اور اہلِ جفا کو مئے الفت کا دیا خم

    کام آیا مصیبت میں ترا شیریں تکلم

    ’’سوبار ترا دیکھ کے عفو اور ترحم

    ہر باغی و سرکش کا سر آخر کو جھکا ہے‘‘

    جن لوگوں کے دل کی تھی خوشی ہار میں تیری

    تھی جن کے سبب نائو بھی منجدھار میں تیری

    کرتے تھے جو بے حُرمتی بازار میں تیری

    ’’جو بے ادبی کرتے تھے اشعار میں تیری

    منقول انہیں سے تری پھر مدح و ثنا ہے‘‘

    انداز نظر آتے ہیں بدلے ہوئے تیرے

    تعبیر سے محروم رہیں گے مرے سپنے

    رہ جائیں گے ذہنوں میں ہی تعمیر کے خاکے

    ’’برتاو ترے جب کہ یہ اعدا سے ہیں اپنے

    اعدا سے غلاموں کو کچھ امید سوا ہے‘‘

    پھر آئے صدا امتِ مرحوم کے حق میں

    بن جائے فضا امتِ مرحوم کے حق میں

    اے راہنما امتِ مرحوم کے حق میں

    ’’کر حق سے دعا امتِ مرحوم کے حق میں

    خطروں میں بہت جس کا جہاز آکے گھرا ہے‘‘

    ظالم ہے اگر کوئی یہاں تو کوئی محسن

    ہو سب کا مزاج ایک یہ کیسے ہو ممکن؟

    بیشک تری مخلوق ہے ہر انس ہر اک جن

    ’’امت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن

    دلدادہ ترا ایک سے ایک ان میں سوا ہے‘‘

    ایماں کی طرف ہوتے ہیں رحمت کے اشارے

    مل جاتے ہیں کشتی کو تحفظ کے سہارے

    پتوار نظر آتے ہیں سیلاب کے دھارے

    ’’ایماں جسے کہتے ہیں عقیدے ہیں ہمارے

    وہ تیری محبت تری عترت کی ولا ہے‘‘

    اعزاز رسانی ہی ترا شام و سحر کام

    میں چاروں طرف بد عملی سے ہوا بدنام

    آنے لگے سر پہ مرے الزام پہ الزام

    ’’ہر چپقلشِ دہر مخالف میں ترا نام

    ہتھیار جوانوں کا ہے پیروں کا عصا ہے‘‘

    آتے ہی یہاں جاتی ہے چہرے سے اداسی

    بخشش کے لیے آتے ہیں ہر سمت سے عاصی

    جھکتی ہے ترے درپہ جبیں صبح و مسا کی

    ’’جو خاک ترے درپہ ہے جاروب سے اڑتی

    وہ خاک ہمارے لیے داروئے شفا ہے‘‘

    ہر گھر ہوا پیغامِ رسالت سے مشرف

    ہر قلب ہوا نورِ ہدایت سے مشرف

    ہر باغ تمنا تری رحمت سے مشرف

    ’’جو شہر ہوا تیری ولادت سے مشرف

    اب تک وہی قبلہ تری امت کا رہا ہے‘‘

    یثرب کی بڑھی’’طیبہ‘‘ سے آفاق میں عظمت

    جس پاک زمیں پر ہوئی سرکار کی رحلت

    سرمہ اسی مٹی کو سمجھتی ہے یہ امّت

    ’’جس ملک نے پائی تری ہجرت سے سعادت

    کعبے سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے‘‘

    ہے جذبہ مرے عشق و عقیدت کا جو گہرا

    اللہ کرے اور اسے مضبوط و توانا

    یارب نہ ہو دل میں کبھی یہ رغبتِ دنیا

    ’’کل دیکھیے پیش آئے غلاموں کو ترے کیا

    اب تک تو ترے نام پہ اک ایک فدا ہے‘‘

    کہتے ہیں یہ رو رو کے غم وقت کے مارے

    بے نور ہیں مدت سے مقدر کے ستارے

    طوفاں میں نظر آتے نہیں اب تو کنارے

    ’’ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے

    نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے‘‘

    کیوں ٹھنڈا ہوا جاتا ہے اسلام کا جذبہ

    ہے ذہن کشادہ نہ یہ دل اپنا کشادہ

    محکم ہی نہیں دیں کے لیے عزم و ارادہ

    ’’گر بد ہیں تو حق اپنا ہے کچھ اور زیادہ

    اخبار میں ’’الطالح لی‘‘ ہم نے سنا ہے‘‘

    زنجیر بھی کٹنے کی ہمارے نہیں کوئی

    تصویر بدلنے کی ہمارے نہیں کوئی

    تقدیر سنورنے کی ہمارے نہیں کوئی

    ’’تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی

    ہاں ایک دعا تیری کہ مقبول خدا ہے‘‘

    سچ پوچھیے دولت نہ تو شہرت کے ہیں خواہاں

    آسائش و آرام نہ راحت کے ہیں خواہاں

    نے تخت کے نے تاج و امارت کے ہیں خواہاں

    ’’خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے ہیں خواہاں

    پر فکر ترے دین کی عزت کی سدا ہے‘‘

    کچھ نفع نہیں عزت و رفعت سے ہماری

    ایمان کی نصرت نہیں شہرت سے ہماری

    نقصان نہیں کچھ بھی ذلالت سے ہماری

    ’’گر دین کو جو کھوں نہیں ذلت سے ہماری

    امت تری ہر حال میں راضی بہ رضا ہے‘‘

    کردار کو اخلاق و تصوف سے سنواریں

    اجداد کے اقوال کو سینے میں اتاریں

    افسردہ سے چہروں کو تقدس سے نکھاریں

    ’’عزت کی بہت دیکھ لیں دنیا میں بہاریں

    اب دیکھ لیں یہ بھی کہ جو ذلت میں مزا ہے‘‘

    اے امجدیؔ کہنا ہے تجھے بات یہ سب سے

    دامانِ محبت کو بچا عیش و طرب سے

    ڈر شام و سحر خالقِ عالم کے غـضب سے

    ’’ہاں حالیِؔ گستاخ نہ بڑھ حدِ ادب ہے

    باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گلا ہے‘‘

    تونے یہ کہاں سوچا کبھی ، کیا ہے مناسب

    کیوں چھینے گیے تجھ سے ترے سارے مراتب

    کیوں حرص و ہوس ذہن پہ تیرے ہوئی غالب

    ’’ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب

    یاں جنبش لب خارج از آہنگِ خطا ہے‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے