کھو دیا نور بصیرت تو نے ما و من کے بیچ
کھو دیا نور بصیرت تو نے ما و من کے بیچ
جلوہ گر تھا ورنہ وہ خورشید تیرے من کے بیچ
پارۂ بے کار ہیں وحدت میں جب تک ہے دوئی
راہ یکتائی ہے رشتہ کے تئیں سوزن کے بیچ
صاف کر دل تاکہ ہو آئینۂ رخسار یار
مانع روشن دلی ہے زنگ اس آہن کے بیچ
ظاہر و پنہاں ہے ہر ذرہ میں وہ خورشید رو
آشکار و مختفی ہے جان جیسے تن کے بیچ
دور ہو گر شامہ سے تیرے غفلت کا زکام
تو اسی کی بو کو پاوے ہر گل و سوسن کے بیچ
کب دماغ اتنا کہ کیجے جا کے گلگشت چمن
اور ہی گلزار اپنے دل کے ہے گلشن کے بیچ
کوچہ گردی تا کجا جوں کاہ باد جرس سے
گاڑ کر پا بیٹھ مثل کوہ تو مسکن کے بیچ
کیوں عبث بھٹکا پھرے ہے جوں زلیخا شہر شہر
جلوۂ یوسف ہے غافل تیرے پیراہن کے بیچ
کب دماغ اپنا کہ کیجے جا کے گلگشت چمن
اور ہی گلزار اپنے دل کے ہے گلشن کے بیچ
مت مجھے تکلیف سیر باغ دے بیدارؔ تو
گل سے رنگیں تر ہے یاں لخت جگر دامن کے بیچ
- کتاب : دیوان بیدارؔ مرتبہ: جلیل احمد قدوائی (Pg. 33)
- Author : میر محمد بیدارؔ
- مطبع : ہندوستانی اکادمی الہ آباد (1937)
- کتاب : دیوان بیدار مرتبہ: محمد حسین محوی (Pg. 33)
- Author : میر محمد بیدارؔ
- مطبع : شاہی پریس ٹزلیپکین، مدراس (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.