دلم ربودہ لولی وشیست شور انگیز
دروغ بادہ و قتال وضع و رنگ آمیز
میرا دل ایک مطربہ صفت شور انگیز کا اچکا ہوا ہے
جو وعدہ خلاف اورقاتل وضع اور رنگ آمیز ہے
فدائے پیرہن چاک ماہ رویاں باد
ہزار جامہ تقویٰ و خرقۂ پرہیز
حسینوں پر اور چاک لباس پر قربان ہوں
تقوے کے ہزار لباس اور پرہیز گاری کی گدڑیاں
فرشتۂ عشق نداند کہ چیست قصہ مخواں
بیار جام شرابے بہ خاک آدم ریز
فرشتہ نہیں جانتا کہ عشق کیا ہے، قصے نہ سنا
شراب کا جام لا، آدم کی خاک پر ڈال دے
غلام آں کلماتم کہ آتش انگیزد
نہ آب سرد زند در سخن بر آتش تیز
میں ان باتوں کا عاشق ہوں جو آگ بھڑکا دیں
نہ اس کا جو باتوں میں تیز آگ پر ٹھنڈا پانی چھڑکے
فقیر و خستہ بہ درگاہت آمدم رحمے
کہ جز ولایت تو ام نیست ہیچ دستاویز
تیرے دربار میں فقیر اور خستہ ہوکر آیا ہوں، کچھ رحم کر
تیری دوستی کے علاوہ میرے پاس کوئی دستاویز نہیں ہے
بیا کہ ہاتف مے خانہ دوش با من گفت
کہ در مقام رضا باش و از قضا مگریز
آجا اس لیے کہ شراب خانہ کے ہاتف نے کل مجھ سے کہا ہے
کہ رضا کے مقام پر رہ اور قضا وقدر سے نہ بھاگ
مباش غرہ بہ بازوئے خود کہ ہر ساعت
ہزار شعبدہ بازد سپہر مکر انگیرز
اپنے بازؤں پر گھمنڈ نہ کر اس لیے کہ ہر وقت
مہربان آسمان ہزار شعبدے کھیلتا ہے
پیالہ در کفنم بند تا سحر گہ حشر
بہ مے ز دل ببرم ہول روز رستاخیز
میرے کفن میں پیالہ باندھ دینا تاکہ حشر کی صبح کو
شراب کے ذریعہ داروگیر کے دن کے خوف کو دل سے دور کردوں
میان عاشق و معشوق ہیچ حائل نیست
تو خود حجاب خودی حافظؔ از میاں برخیز
عاشق اور معشوق کے درمیان کوئی آڑ نہیں ہے
اے حافظؔ تو خود اپنے لئے پردہ ہے درمیان سے اٹھ جا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.