غم کو دشمن درد کو نامہرباں سمجھا تھا میں
ہائے کن اٹھتی بہاروں کو خزاں سمجھا تھا میں
ایک ہی ساغر نے مجھ پر یہ حقیقت کھول دی
وہ بھی میکش تھا جسے پیرِ مغاں سمجھا تھا میں
سننے والوں کی خطا کیا تھی نہ سمجھا گر کوئی
خود بڑی مشکل سے اپنی داستاں سمجھا تھا میں
ہائے وہ نکلا میری چشمِ چمنا کا سراب
دور سے جس کو غبارِ کارواں سمجھا تھا میں
مجھ کو ملتا بھی تو کس عنواں سے لطفِ بندگی
سجدے کو پابندِ سنگ آستاں سمجھا تھا میں
کیا خبر تھی آشیاں کی زد میں ہیں خود بجلیاں
بجلیوں کی زد میں اپنا آشیاں سمجھا تھا میں
حسرتوں کا تھا جنازہ آرزوؤں کا مزار
ہائے وہ قطرہ جسے اشک رواں سمجھا تھا میں
ایک ہی مرکز پہ تھے ناز و نیازِ عاشقی
ان کے قصے کو بھی اپنی داستان سمجھا تھا میں
ختم ہوتی کس طرح بہزادؔ میری رہروی
رہ گذر تھی جس کو منزل کا نشاں سمجھا تھا میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.