تصور ہی کسی پردہ نشیں کا
یہ عالم ہے دلِ اندوہ گیں کا
یہ عکس رخ ہے کس پردہ نشیں کا
بنا ہے مہر ہر ذرہ زمیں کا
جبیں جب سے جھکی ہے بہرِ سجدہ
فلک سے پوچھیے رتبہ زمیں کا
ابھر آیا ہے پھر میرا سفینہ
کرم دیکھو یہ موجِ تہ نشیں کا
نہ لاتا تاب دے دیا یار لیکن
سہارا ہے نگاہِ اولیں کا
دلِ مضطر شکستہ ہو تو کیوں کر
مکاں کو پاس ہے اپنے مکیں کا
ازل سے آج تک ہے وقف سجدہ
کوئی یہ حوصلہ دیکھے جبیں کا
حجابوں پر بھی ہو جاتا ہے ظاہر
یہی پردہ تو ہے پردہ نشیں کا
ہوا ہے جب سے دامن پارہ پارہ
تو آیا ہوش ہم کو آستیں کا
ہزاروں رنگ کے جلوے میں اس میں
فلک حیراں ہے کیا کہنا زمیں کا
ہمارا حال اب ابتر ہے بہزادؔ
محبت نے نہیں رکھا کہیں کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.