Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

تصور ہے کسی پردہ نشیں کا

بہزاد لکھنوی

تصور ہے کسی پردہ نشیں کا

بہزاد لکھنوی

MORE BYبہزاد لکھنوی

    تصور ہے کسی پردہ نشیں کا

    یہ عالم ہے دل اندوہ گیں کا

    یہ عکس رخ ہے کس پردہ نشیں کا

    بنا ہے مہر ہر ذرہ زمیں کا

    جبیں جب سے جھکی ہے بہر سجدہ

    فلک سے پوچھیے رتبہ زمیں کا

    ابھر آیا ہے پھر میرا سفینہ

    کرم دیکھو یہ موج تہ نشیں کا

    نہ لاتا تاب دید یار لیکن

    سہارا ہے نگاہ اولیں کا

    دل مضطر شکستہ ہو تو کیوں کر

    مکاں کو پاس ہے اپنے مکیں کا

    ازل سے آج تک ہے وقف سجدہ

    کوئی یہ حوصلہ دیکھے جبیں کا

    حجابوں پر بھی ہو جاتا ہے ظاہر

    یہی پردہ تو ہے پردہ نشیں کا

    ہوا ہے جب سے دامن پارہ پارہ

    تو آیا ہوش ہم کو آستیں کا

    ہزاروں رنگ کے جلوے میں اس میں

    فلک حیراں ہے کیا کہنا زمیں کا

    ہمارا حال اب ابتر ہے بہزادؔ

    محبت نے نہیں رکھا کہیں کا

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے