مرزا غالب کے صوفیوں کے مکتوب
شاہ کرامت حسین ہمدانی بہاری کے نام
شاہ صاحب! میری ایک رباعی سنو۔ کہتے ہیں کہ اب وہ مردمِ آزار نہیں عشاق کی پرسش سے اسے عار نہیں جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہوگا کیوں کر مانوں کہ اس میں تلوار نہیں یہ رباعی عاشقانہ ہے مگر مضمون بالکل نیا ہے، باقی الفاظ کے معنی ظاہر ہیں۔ دوسری رباعی سنو۔ ہم
صوفی منیری کے نام
زبدۂ اولاد حضرت خیرالانام، قبلہ و کعبہ، مجموع اہل اسلام، حضرت پیر و مرشد عالی مقام کی خدمت میں فقیر غالبؔ کی بندگی قبول ہو، اپنے ابوالآبا کے بوڑھے غلام کو آپ نے اتنا کیوں شرمایا کہ وہ بے چارہ شرم سے پانی پانی ہوا جاتا ہے، کافی تھا ان اشعار کا بھیج
شاہ کرامت حسین ہمدانی بہاری کے نام
شاہ صاحب کو غالبِ ناتواں کا سلام پہنچے، صوفیوں کی اصطلاح میں محاورت و مسامرت اور مرتبے ہیں جو کاملین اور عرفا کو حاصل ہوتے ہیں، میرا شعر پڑھو۔ جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی مطلب یہ ہے کہ شاہدِ حقیقی کے ساتھ اس معمولی
حکیم سید احمد حسن مودودی
سید صاحب قبلہ! عنایت نامہ مع قصیدہ پہنچا، پس و پیش ایک رافت نامہ پیر و مرشد سید ابراہیم علی خان صاحب بہادر اور ایک عطوفت نامہ قبلہ و کعبہ سید عالم علی خان بہادر کا پہنچا، میں علی کا غلام ہوں اور اولادِ علی کا خانہ زاد لیکن بوڑھا اور ناتواں اور مسلوب
صاحب عالم مارہروی
پیر و مرشد ! سلام و نیاز پہنچے، کف الخضیب صور جنوبی میں سے ایک صورت ہے، اس کے طلوع کا حال مجھ کو کچھ معلوم نہیں، اختر شناسانِ ہند کو اس کا کچھ حال معلوم نہیں اور ان کی زبان میں اس کا نام بھی، یقین ہے کہ نہ ہوگا، قبول دعا وقت طلوع منجملہ مغامینِ شعری
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere