اردو زبان میں سیرت النبی پہ قابلِ ذکر کتابیں
قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک ائمہ، محدثین، علما اور مشائخ نے اپنے اپنے ذوق و فہم کے مطابق حضرتِ رسولِ اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور میلادالنبی کے موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے، نظم و نثر ہر دو میدانوں میں ایسے گراں قدر علمی و روحانی سرمائے وجود میں آئے جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، ان میں بعض مختصر رسائل ہیں، تو بعض ضخیم اور مفصل تالیفات مگر سب کا مقصود ایک ہی ہے سیرت کے مختلف پہلوؤں کو آشکار کرنا اور بندگانِ خدا کے دلوں میں عشق و ادبِ نبوی کو تازہ رکھنا۔
ائمہ و محدثین نے اپنی کتبِ احادیث، سیرت و فضائل اور تاریخ میں میلاد کے لیے مستقل ابواب باندھے، امام ترمذی نے الجامع الصحیح میں کتاب المناقب کے دوسرے باب کو ما جاء فی میلادالنبی کے عنوان سے قائم کیا، ابنِ اسحٰق نے سلسلۃ مصادر التاریخ الاسلامیہ میں، ابنِ ہشام نے السیرۃ النبویہ میں، ابنِ سعد نے الطبقات الکبریٰ میں، امام ابو نعیم اصفہانی نے دلائل النبوۃ میں، امام بیہقی نے دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ میں، ابو سعد خرکوشی نیشاپوری نے شرف المصطفیٰ میں، ابنِ اثیر نے الکامل فی التاریخ میں، امام طبری نے تاریخ الامم والملوک میں، ابنِ کثیر نے البدایہ والنہایہ میں اور ابنِ عساکر نے تاریخِ دمشق الکبیر میں تفصیل سے میلاد و سیرت پر ابواب قائم کیے۔
الغرض عہد بہ عہد تمام اجل علما و محدثین نے اپنی تالیفات میں میلاد کو خاص مقام دیا، امام محمد بن یوسف صالحی شامی نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیرالعباد میں اس موضوع پر نہایت تفصیل سے بحث کی اور جوازِ میلاد کے حق میں مضبوط شرعی و عقلی دلائل پیش کیے، امام ابو عبداللہ بن الحاج مالکی نے المدخل الی تنمیۃ الاعمال بتحسین النیات والتنبیہ علی کثیر من البدع المحدثۃ والعوائد المنتحلۃ میں میلاد کے مختلف پہلوؤں پر مفصل کلام کیا، امام زرقانی نے المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ میں اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ما ثَبَتَ مِنَ السنۃ فی ایّامِ السنۃ میں اس موضوع کو نہایت تحقیق و بصیرت سے بیان کیا۔
اسی طرح اردو زبان میں بھی سیرت پر متعدد وقیع اور جامع تصانیف منظرِ عام پر آئیں تاکہ اس زبان کے قارئین بھی حیاتِ رسول سے براہِ راست آشنائی حاصل کریں اور اُن کے اخلاق و کردار کی روشنی اپنی زندگی میں جذب کر سکیں، شاہ علی امیرالحق عمادی پھلواروی کا رسالہ میلاد الرسول اور شاہ محمد یحییٰؔ ابوالعلائی عظیم آبادی کا ذکرِ معراج 1857ء سے قبل تحریر کیے گئے، اسی زمانے میں حکیم ناصر علی آروی کی انوارِ ناصری 1281ھ میں لکھنؤ سے شائع ہوئی، جس میں حضرت رسول اللہ کے اوصاف و حلیۂ مبارک کو نہایت لطیف انداز میں بیان کیا گیا ہے، اس کے بعد کانپور سے 1289ھ میں ناصرالمحسنین فی اخلاق سیدالمرسلین اخلاقِ نبوی کی تصویر کشی کی گئی، جب کہ ناصراللبیب فی اسماء الحبیب (لکھنؤ، 1289ھ) حضرت رسول اللہ کے فضائل و مناقب پر ایک قیمتی رسالہ ہے، اسی طرح شاہ محمد اکرم کی مولد شریف اور محمد فیاض الدین پھلواروی کی فیض القلوب فی مولدالمحبوب (فیاض الارواح) جیسی کتابیں بھی اہلِ ذوق میں مقبول ہوئیں۔
اسی موضوع پر خانقاہِ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے جلیل القدر سجادہ نشیں اور معروف صوفی شاعر حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری نے ایک بے مثال تصنیف مولدِ غریب کے نام سے قلم بند کی، جو اردو زبان میں سیرت نگاری کی قدیم ترین اور اہم ترین کتب میں شمار ہوتی ہے، حضرت اکبر کی مولدِ غریب کے بعد اس روایت کو محمد اسمٰعیل آروی کی میلاد شریف جدید (مقبول صمدی میلا احمدی)، مولانا عبدالرحیم داناپوری کی افضل السیر، وزیرالدین احمد شیخ پوروی کی درِ ظہور، محمد اشرف علی قادری کی حدیقۂ خاتم النبیین، غلام محمد عباس کی ذکرِ میلاد، شفق عمادپوری کی حدیقۂ آخرت، عمر کریم حنفی عظیم آبادی کی مولود شریف، شاہ نذرالرحمٰن حفیظؔ عظیم آبادی کی وسیلۃ النجات فی ذکر ولادۃ اشرف المخلوقات، حافظ محب الحق کی میلادالنبی اور مولانا عبدالرؤف داناپوری کی اصح السیر جیسی کتب نے آگے بڑھایا۔
عہدِ جدید میں مولانا شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کی سیرت النبی کو سب سے زیادہ شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی، اسی طرح خواجہ حسن نظامی، مولانا عبدالرحمٰن دہلوی، بہزادؔ لکھنوی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کے رسائل و تالیفات بھی اہلِ علم سے دادِ تحسین حاصل کر چکے ہیں۔
تبرکاً حضرت شاہ اکبر داناپوری کی مولدِ غریب پر چند سطور قلم بند کر رہا ہوں، تاکہ آنے والی نسلیں اردو زبان کی قدیم سیرت نگاری کے سرمائے سے واقف ہو سکیں۔
حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’مولدِ غریب‘‘ ۱۲۹۲ھ میں قلم بند کی، یہ کتاب قدیم طرزِ تحریر کی حسین یادگار ہے، جس کی عبارت مسجع، مقفیٰ اور ہم آہنگ الفاظ سے مزین ہے، اس پُرتکلف نثر نے اپنے مخصوص آہنگ اور اسلوب سے کتاب کو ایک منفرد رنگ عطا کیا ہے۔
مولدِ غریب کے مضامین میں سیرتِ نبوی کے مختلف پہلو نہایت شرح و بسط سے بیان کیے گئے ہیں، جن میں مناقبِ صحابہ کرام، مناقبِ اہلِ بیت، آدابِ سماعِ ذکرِ مولد، فضائلِ درود شریف، نورِ محمدی، اس کے انتقالات، تذکرۂ عبدالمطلب و عبداللہ، ولادتِ باسعادت، رضاعتِ مطہرہ اور سفرِ معراج جیسے موضوعات شامل ہیں۔
حضرت اکبر نے ایک نیا اسلوب اختیار کیا، یعنی ہر مضمون کے آغاز سے قبل ’’روایت‘‘ کا لفظ استعمال کیا، جیسے:
’’روایت جب پیدا ہوئے حضرت آدم، کنیت ان کی ابو محمد رکھی گئی‘‘
یہ طرزِ تحریر مولدِ غریب کو محض ایک سوانحی یا تاریخی رسالہ نہیں رہنے دیتا بلکہ اسے علم، ادب اور روایتِ صوفیہ کے حسین امتزاج میں بدل دیتا ہے۔
حضرت اکبر نے کتاب کو مستند حوالوں سے مزین رکھا، جگہ جگہ صوفی شعرا و عرفا کے عربی و فارسی اشعار و اقوال درج کیے، جن میں مولانا جلال الدین رومی، عبدالرحمن جامیؔ، شیخ سعدیؔ، حافظؔ شیرازی، بیدلؔ، علی حزیںؔ، اوحدیؔ مراغہای، امیر خسروؔ، بابا فغانی، شمسؔ مغربی، ابوالفیض فیضیؔ، مرزا مظہرؔ جانِ جاناں اور شاہ نیازؔ احمد بریلوی کے نام نمایاں ہیں۔ اردو شعرا میں سید امجد علی اصغرؔ اکبرآبادی، کفایت علی کافیؔ مرادآبادی، اور امیرؔ مینائی کے اشعار نقل کیے گئے ہیں، جو نثر کے حسن کو دوبالا کر دیتے ہیں۔
یہ رسالہ دراصل نثر و نظم کا حسین مرقع ہے، اس میں حضرت اکبر اور دیگر شعرا کی تقریباً ایک درجن نعتیں، مسدس، تضمین، قطعے، رباعیات اور منظومات شامل ہیں، جو کتاب کے روحانی اور ادبی ذوق کو عروج پر پہنچاتی ہیں، آغاز میں دو تقریظیں شامل ہیں: پہلی حضرت شاہ امین احمد فردوسی ثباتؔ بہاری کی اور دوسری منشی مولیٰ بخش آزادؔ اکبرآبادی کی۔ اسی طرح حضرت اکبر کے صاحبزادے حضرت شاہ محمد محسن ابوالعلائی داناپوریؒ کا ایک تاثر (دیباچہ) بھی شامل ہے، جو حمدِ باری تعالیٰ پر مشتمل ہے، آخر میں ۱۳ قطعاتِ تاریخ درج ہیں، جن کے ناظمین میں حضرت اکبر کے معاصر اور عقیدت مند علما و شعرا شامل ہیں، جیسے
حضرت شاہ محمد اکبر ابوالعلائی داناپوری، شاہ محمد وزیرالدین ابوالعلائی عطاؔ داناپوری، منشی مولابخش آزادؔ اکبرآبادی، منشی کبیرالدین حسین تہذیبؔ، شیخ محمد نورؔ ابوالعلائی، منشی تفضل حسین نقشبندی محزوںؔ، حکیم غلام شرف الدین شفاؔ، شاہ نظیر حسن ابوالعلائی الہامؔ داناپوری، شاہ محمد کبیرالدین عرفاںؔ داناپوری، مرزا الطاف علی سروشؔ، شیخ ریاض الدین ہلالؔ اکبرآبادی، میاں وزیرالدین اکبرآبادی، اور مولانا نثارؔ علی اکبرآبادی۔
کتاب کی ساخت نہایت منظم ہے، یہ چھ فصلوں پر مشتمل ہے۔
مناقبِ صحابہ کرام و اہلِ بیت
آدابِ سماع و فضائلِ درود
نورِ محمدی اور اس کے انتقالات
عبدالمطلب و عبداللہ کا تذکرہ
ولادت و رضاعتِ رسول
سفرِ معراج
تحقیقی اعتبار سے یہ کتاب نہایت قابلِ اعتماد اور مستند ہے، بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مولدِ غریب دراصل امام طبری کی تاریخ الطبری اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی مدارج النبوت کی تلخیص اور توضیح معلوم ہوتی ہے، حضرت اکبر نے ان دونوں ماخذوں سے مراجع اخذ کر کے ہر روایت کے نیچے اس کی تشریح درج کی ہے۔
مولدِ غریب کے دو دیگر نام بھی ملتے ہیں ’’دعویٔ بخشش‘‘ اور ’’وسیلۂ مغفرت‘‘، دونوں کے حروفِ تاریخ بھی ۱۲۹۲ھ بنتے ہیں، کتاب کی اشاعت ۱۳۰۲ھ میں مطبع ابوالعلائی (آگرہ) سے شیخ خدا بخش کے زیرِ اہتمام ۱۰۶ صفحات پر عمل میں آئی۔
رسالے کے صفحۂ اول پر یہ عبارت تحریر ہے۔
’’وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهُ۔ الحمدللہ والمنۃ کہ کتابِ مستطاب و نسخۂ لاجواب، نادرالوجود، کیمیائے مقصود، موسوم بہ دعویٰ بخشش و مولدِ غریب و وسیلۂ مغفرت، تصنیفِ لطیف، تالیفِ شریف حضرت قبلۂ اربابِ معرفت، حاجی الحرمین الشریفین، سید شاہ محمد اکبر صاحب مدظلہ العالی ابوالعلائی سجادہ نشین داناپور، مطبع ابوالعلائی، آگرہ۔‘‘
اور آخری صفحے پر حضرت اکبر کی ایک دوسری تصنیف ’’نیچری تاریخ‘‘ کا اشتہار موجود ہے، جس میں مذہبِ نیچریہ کی ابتدا، ان کے بانیان، عقائد و نظریات پر مدلل بحث کی گئی ہے، یہ کتاب بھی اردو زبان میں علمی بصیرت اور تنقیدی گہرائی کی عمدہ مثال ہے، گزشتہ برس خانقاہ کے سالانہ عرس کے موقع پر مولدِ غریب کا تازہ ایڈیشن شائع ہو کر منظرِ عام پر آچکا ہے، جو اہلِ ذوق و محققین کے لیے نہایت قیمتی اثاثہ ہے۔
المختصر ! اردو زبان میں سیرت پر کیا گیا یہ علمی و روحانی کام ہمارے ادبی ورثے کا روشن باب ہے، جن کتابوں کا ذکر ناچیز نے کیا ہے وہ اپنی دو سو سالہ تاریخ میں سیرت نگاری کی آبرو کہی جاسکتی ہیں، دعا ہے کہ یہ بیش قیمت تصانیف از سرِ نو اہلِ علم کی دسترس میں آئیں تاکہ آئندہ نسلیں اپنی تہذیبی جڑوں اور دینی شعور سے آشنائی حاصل کر سکیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.