Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

ذکر خیر حضرت پیر نصیرالدین نصیرؔ

ریان ابوالعلائی

ذکر خیر حضرت پیر نصیرالدین نصیرؔ

ریان ابوالعلائی

MORE BYریان ابوالعلائی

    حضرت پیر نصیرالدین نصیرؔ معروف شاعر، ادیب، محقق، خطیب، عالم اور گولڑہ شریف کی درگاہ کے سجادہ نشیں تھے، آپ اردو، فارسی اور پنجابی زبان کے شاعر تھے، اس کے علاوه عربی، ہندی، پوربی اور سرائیکی زبانوں میں بھی شعر کہے ہیں، اسی وجہ سے انہیں شاعرِ ہفت زبان کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

    پیر نصیرالدین نصیرؔ حضرت غلام معین الدین بڑے لالہ جی کے بیٹے، حضرت غلام محی الدین بابو جی کے پوتے اور حضرت پير مہر علی شاہ کے پرپوتے تھے، آپ کا نسب اٹھائیس واسطوں سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی اور انتالیس واسطوں سے حضرت امام حسن سے جا ملتا ہے، یہ خاندان تو قادریوں کا ہے مگر سلسلہ خواجہ معین الدین چشتی کا ہے۔

    آپ کی پیدائش 22 محرم الحرام 1369 ہجری بمطابق 14 نومبر 1949ء میں گولڑه، اسلام آباد میں ہوئی اور انتقال 17 صفرالمظفر 1430ہجری بمطابق 13 فروری 2009ء کو ہوا، آپ کا مزار گولڑه شریف میں آبائی حلقے میں موجود ہے، ابھی حال میں آپ کے تابوت کو نکال کر پیر مہر علی کے پہلو میں جگہ دی گئی ہے۔

    پیر نصیرالدین نصیرؔ بہترین ادیب تھے، ان کا شعر و ادب سے شغف اور زبان دانی کا کمال ادبا اور شعرا سے لے کر عوام الناس تک مسلمہ ہے، ان کی کتابیں دینی، مذہبی، اصلاحی، ادبی اور تحقیقی نوعیت کی حامل ہیں، آپ نے شعر و سخن اور تحریر و تقریر سے ہزاروں لوگوں کو اپنا دیوانہ بنایا، آپ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا تو لکھتے چلے گئے، آپ کا اندازِ بیاں نثر اور نظم دونوں میں منفرد ہے لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ آپ کا انوکھا اندازِ بیاں آپ کے خیالات و احساسات اور آپ کے سچے جذبوں کے جمال کا ترجمان ہے، ان کے جذبات و خیالات کا حسن، سچائی و ایمانداری کی حقیقت، حق گوئی و بے باکی میں مضمر ہے، جس کا اظہار آپ نے بلا خوف و خطر اپنی نثری تحریروں اور تقریروں میں بھی کیا، آپ کی کتاب ’’نام و نسب‘‘ اور ’’رنگ نظام‘‘ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    پیر نصیر ایک خوش بیان مقرر بھی تھے، لاکھوں کے مجمع کو گھنٹوں بیان کرتے اور حیرت ہے کہ گھنٹوں بیان کے بعد بھی لوگ اکتاہٹ محسوس نہ کرتے بلکہ انتہائی لگن سے آپ کی تقریر سنتے، فی البدیہہ بات کرنا آپ کی خاص خوبی تھی، شاعری آپ پر الہام کی طرح اترتی تھی، پیر نصیر اپنے دور کے بڑے نعت گو شاعر ہیں، ان کی نعتیہ شاعری روایتی طریقہ سے ہٹ کر سیرتِ طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔

    آیا ہے نصیرؔ آج تمنا یہی لے کر

    پلکوں سے کیے جائے صفائی تیرے در کی

    نعت کہنا دو دھاری تلوار پر چلنا ہے، اسی وجہ سے چنندہ شاعر ہی اس صنف میں طبع آزمائی کرتے ہیں، پیر نصیر خود فرماتے ہیں کہ

    ’’نعت کا موضوع بظاہر محدود دکھائی دیتا ہے مگر اس کا موضوع چوں کہ عظیم ہستی ہے جس میں تمام انفس و آفاق کی وسعتیں سمٹ آئی ہیں اس لیے یہ صنف شعر بھی حد درجہ لامحدود اور وسیع ہے‘‘

    پیر نصیر نے ایک ایک نعتیہ شعر کو بڑے پیار و محبت اور چاہت و الفت کے جذبات کے پیشِ نظر رکھ کر نعت کی لڑی میں پرویا ہے۔

    انہیں میرے اچھے بُرے کی خبر ہے

    وہ سب کچھ خدا کی قسم جانتے ہیں

    پیر نصیر پاکستان میں اپنی صدی کی سب سے عظیم شخصیت تھے اور ایسے عظیم انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں، ان کے اندر شاعری کا جذبہ کوئی نیا نہیں تھا بلکہ ان کا گھرانہ برسوں سے اس فن میں طبع آزمائی کرتا چلا آرہا ہے، پیر نصیر کے پردادا پیر مہر علی شاہ پنجابی زبان میں بہترین شاعری کرتے تھے، ان یہ شعر کافی مشہور ہے کہ

    کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا

    گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑياں!

    اسی طرح پیر نصیر کے دادا غلام محی الدین بابو جی اور ان کے والد غلام معین الدین جو مشتاقؔ تخلص کرتے تھے شاعری سے خاص لگاؤ رکھتے تھے، اسی ماحول نے پیر نصیر کے اندر بھی شاعری کا جذبہ پیدا کیا، پیر نصیر نے تعلیم و تربیت کسی یونیورسیٹی یا بڑی درس گاہ سے حاصل نہیں کی بلکہ اپنے بزرگوں کی سنگت اور وقت کے بڑے عالم اور پیر مہر علی شاہ کے مرید مولانا فتح محمد اور مولانا فیض احمد فیض کی صحبت میں رہ کر علم حاصل کیا اور علمِ تجوید گولڑہ کے امام قاری محبوب علی لکھنوی سے سیکھا، ان کے دادا حضرت غلام محی الدین بابو جی نے بچپن ہی سے ان کے جذبے کی قدر کی اور مشق کراتے رہے، پیر نصیر اپنے دادا کے مرید و خلیفہ ہوئے، نصیرؔ کہتے ہیں کہ

    کون ہے میرے سوا صاحبِ تقدیر ایسا

    مل گیا میرے مقدر سے مجھے پیر ایسا

    کیوں نہ ناز ہو مجھے اپنے مقدر پہ بھلا

    پیر ایسا ہے مرے پیر کا ہے پیر ایسا

    جن لوگوں نے حضرت بابو جی کو دیکھا ہے وہ بالکل اس بات سے اتفاق کریں گے کہ پیر نصیر کی شکل و صورت بالکل اپنے دادا سے ملتی تھی، انہوں نے اپنے ہاتھوں سے پیر نصیر کی تربیت کی اور اس لائق بنایا، پیر نصیر لکھتے ہیں کہ

    ’’ذرہ نوازی اور حوصلہ افزائی دیکھیے کہ میرے دادا حضرت بابو جی اکثر و بیشتر میری فارسی اور اردو غزلوں کو پسند فرماتے اور درگاہ کے دیرینہ قوال استاد محبوب علی اور مشتاق علی سے سنا کرتے تھے‘‘

    اور دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ

    ’’مجھے یاد ہے کہ میرے بالکل ابتدائی زمانۂ شعر گوئی میں حضرت پیر مہر علی شاہ کے ایک مخلص مرید شیر محمد مستری اکثر مجھے غالب کے اشعار سنایا کرتے تھے‘‘

    گولڑہ شریف میں عرس کے دوران طرحی مشاعروں میں کثرت سے شرکت کرتے اور ایک لمبے وقتوں تک مشاعرہ آباد رکھا اور اس طرح غزلیں تیار ہوتی گئیں، یہ وہ شب و روز تھے جب پیر نصیر پروان چڑھ رہے تھے اور ان کے شعر کہنے کا مذاق دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، جب جب نئی غزلیں کہتے تو ان کے دادا حضرت غلام محی الدین بابو جی قوالوں سے دھن کے ساتھ غزلیں سنتے اور اس طرح نصیر کی شاعری بلندیوں کو چھونے لگی، نصیریات میں سے چند ایک کلام پڑھیے اور اپنے دل کو اطمینان بخشیے۔

    بیتاب ہیں، ششدر ہیں، پریشان بہت ہیں

    کیوں کر نہ ہوں، دل ایک ہے، ارمان بہت ہیں

    کیوں یاد نہ رکھوں تجھے اے دشمنِ پنہاں!

    آخر مرے سر پر ترے احسان بہت ہیں

    ڈھونڈو تو کوئی کام کا بندہ نہیں ملتا

    کہنے کو تو اس دور میں انسان بہت ہیں

    اللہ ہ! اسے پار لگائے تو لگائے

    کشتی مری کمزور ہے طوفان بہت ہیں

    ارمانوں کی اک بھیڑ لگی رہتی ہے دن رات

    دل تنگ نہیں، خیر سے مہمان بہت ہیں

    دیکھیں تجھے، یہ ہوش کہاں اہلِ نظر کو

    تصویر تری دیکھ کر حیران بہت ہیں

    یوں ملتے ہیں، جیسے نہ کوئی جان نہ پہچان

    دانستہ نصیرؔ آج وہ انجان بہت ہیں

    دیگر

    جو آستاں سے تیرے لو لگائے بیٹھے ہیں

    خدا گواہ ہے زمانے پہ چھائے بیٹھے ہیں

    چمک رہی ہے جبینیں تیرے فقیروں کی

    تجلیات کے سہرے سجائے بیٹھے ہیں

    ایک ہم ہیں کہ اپنوں کے دل نہ جیت سکے

    وہ دشمنوں کو بھی اپنا بنائے بیٹھے ہیں

    نصیرؔ ہم میں اپنوں سی کوئی بات نہیں

    کرم ہے ان کا کہ اپنا بنائے بیٹھے ہیں

    دیگر

    آغوشِ جنو ں میں جا رہا ہوں

    ہر غم سے نجات پا رہا ہوں

    وہ ناؤ مجھی کو لے کے ڈوبی

    جس ناؤ کا ناخدا رہا ہوں

    دیگر

    جان پیاری تھی مگر جان سے پیارے تم تھے

    جو کہا تم نے وہ مانا گیا، ٹالا نہ گیا

    صرف اک بار نظر بھر کے انہیں دیکھا تھا

    زندگی بھر مری آنکھوں کا اجالا نہ گیا

    رئیس امروہوی لکھتے ہیں کہ

    ’’پیر نصیر ایک ممتاز ترین روحانی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں، ان کی قلندری اور درویشی میں‌ کسے شبہ ہو سکتا ہے؟ ان کی فارسی رباعیات کا مطالعہ کریں تو عالَم ہی دوسرا نظر آتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے قلب میں‌ مرزا عبدالقادر بیدلؔ عظیم آبادی کی آواز گونج رہی ہے اور ان کے لہجے میں بیدل ہی بول رہے ہیں‘‘

    ڈاکٹر عبداللہ لکھتے ہیں کہ

    ’’پیر نصیر غزل کی کلاسیکی روایتوں میں پلے ہوئے شاعر ہیں، لہٰذا ان کی غزل سخن کی روایات کی پابند ہے، ان کی غزلیات میں بھی ردیفوں کی شان پائی جاتی ہے، جن میں‌ زندگی کی حقیقتوں اور قلبِ انسانی کی لطافتوں کو بہ اندازِ خوش پیش کیا گیا ہے، زبان کی شیرینی اور بیان کی خوبی اس پر مستزاد ہے، نوجوانی میں‌ کسی کی اتنی پختہ شاعری میں نے بہت کم دیکھی اور پڑھی ہے‘‘

    وہ ہمارے ہم اُن کے ہو جائیں

    بات اتنی ہے اور کچھ بھی نہیں

    اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزا عبدالقادر بیدلؔ کی زندگی کے حوالے سے پیر نصیر جیسا کوئی دوسرا نہیں تھا، انہیں بیدلؔ کے علاوہ رومیؔ، سعدیؔ، جامیؔ، عراقیؔ، گنجویؔ، عرفیؔ، صائبؔ، غنیؔ، حافظؔ، خسروؔ اور باہوؔ وغیرہ کے درجنوں اشعار یاد تھے بلکہ اردو شعرا کے تو درجنوں غزلیں پختہ یاد تھیں، اپنی تقریر میں اپنی غزلوں کے علاوہ اساتذہ کی غزلیں بھی بڑے شوق سے سنایا کرتے تھے۔

    کتابوں کے لحاظ سے پیر نصیر کی سب سے پہلی کتاب فارسی رباعیات پر مشتمل آغوشِ حیرت چھپی، اس مجموعے کی ترتیب اور چھپائی کے مراحل میں پہنچانے کے لیے مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی نے اپنی خدمات پیش کیں، ’’آغوشِ حیرت‘‘ کی مبارکبادی میں سب سے پہلا خط مولانا سید ابوالحسن ندوی نے بھیجا، اُس وقت پیر نصیر کی عمر بمشکل ستائیس برس کے لگ بھگ تھی، ہندوستان اور پاکستان کے بڑے بڑے صاحبانِ علم نے انہیں مبارکباد بھیجی، آپ کی تین سو فارسی رباعیات کو ایران کی یونیورسیٹی نے ایم اے کے نصاب میں بھی شامل کیا ہے۔

    پیر نصیر کی کتابوں کے نام یہ ہیں۔

    آغوشِ حیرت (رباعیاتِ فارسی)

    پیمانِ شب (غزلیاتِ اردو)

    دیں ہمہ اوست (عربی، فارسی، اردو، پنجابی نعوت)

    امام ابوحنیفہ اور ان کا طرزِ استدلال (اردو مقالہ)

    نام و نسب (در باره سیادت پیران پیر)

    فیضِ نسبت (عربی، فارسی، اردو، پنجابی مناقب)

    رنگِ نظام (رباعیاتِ اردو)

    عرشِ ناز (فارسی، اردو، پوربی، پنجابی اور سرائیکی زبان میں کہے گئے کلام کا سنگرہا)

    دستِ نظر (غزلیاتِ اردو)

    راہ و رسمِ منزلہا (تصوف و مسائل عصری)

    تضمینات بر کلام احمد رضا بریلوی

    قرآنِ مجید کے آدابِ تلاوت

    لفظ ’’اللہ‘‘ کی تحقیق

    اسلام میں شاعری کی حیثیت

    مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب

    پاکستان میں زلزلے کی تباہ کاریاں، اسباب اور تجاویز

    فتویٰ نویسی کے آداب

    موازنہ علم و کرامت

    کیا ابلیس عالم تھا؟

    ظفر قادری لکھتے ہیں کہ

    ’’ان حالات میں جب نصیر جیسا جوانِ رعنا، شعر و سخن کی وادیوں میں پھول کھلاتا اور علمِ تصوف کے بحرِ عمیق میں غوطے لگاتا نظر آ جاتا ہے تو ٹوٹی آس بندھنے لگتی ہے اور اندر سے آواز آتی ہے‘‘

    ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

    پیر نصیر روحانیت سے مست بادۂ الست انسان تھے، انہوں نے کبھی کسی خاص فکر یا تحریک کا حصہ نہیں بنے، ان کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ دیوبندی، بریلوی، شیعی، اہلِ حدیث اور دوسری جماعت ان کو اپنے یہاں دعوت بھی دیتی اور ان کی تقریریں بھی سنتی تھی مگر پیر نصیر نے کبھی کسی خاص فکر یا تحریک کے لیے کچھ نہ کہا جو کہا حق کہا، یہی وجہ ہے کہ تمام جماعت کے بڑے بڑے افراد ان کی خانقاہ میں آتے اور ان کی صحبت اختیار کرتے، وہ نذرانہ اور روایتی سجادہ نشینی کے بالکل خلاف تھے، کہتے ہیں کہ

    مسندِ پیری پہ یوں جم کہ نہ بیٹھو تم نصیرؔ

    کل کو اٹھ جاؤ گے یہ سارا تماشا چھوڑ کر

    ان کی ایک رباعی پڑھیے اور اس بات کا اندازہ لگائیے۔

    مسند پہ ذرا بیٹھیں گے اترائیں گے

    یہ مفت کا مال چار دن کھائیں گے

    آتی نہیں ابجد طریقت تو نہ آئے

    سجادہ نشیں پھر بھی کہلائیں گے

    میرا خیال ہے کہ وہ اس دور کے سب سے بڑے اور کامیاب سجادہ نشیں گزرے جنہوں نے خانقاہوں اور درگاہوں کے اندر غلط رسمیں اور برائیوں کو دور کرنے کے لیے آوازیں اٹھائیں، اس سفر میں کچھ لوگ ان کے ساتھ تھے تو کچھ ان کے خلاف، پیر نصیر برابر یہ کہتے تھے کہ ’’ہائے رے! مجھ کو وہ بھی کہتے ہیں برا، میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے‘‘

    وہ کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوئے، بڑے سے بڑا دنیادار ان کے پاس دولت لے کر آیا مگر انہیں متاثر نہ کرسکا، کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پاکستان کی گورنمنٹ کا یک بڑا منصب دار انہیں پاکستان کے وزیر بننے کا آفر کیا، پیر نصیر نے فوراً جواب دیا کہ ’’بادشاہ کو وزیر بنانے کا سوچتے ہو!‘‘ اس عنوان پر ان کی ایک رباعی پڑھیے اور دل ہی دل میں اس کا مزا لیجیے۔

    فانی ہے یہ اربابِ طرب کی کرسی

    دائم قائم ہے صرف رب کی کرسی

    جسٹس ہو گورنر کہ وزیرِ اعظم

    دیمک کی لپیٹ میں ہے سب کی کرسی

    لوگ ان پر مرتے تھے، ان کی تقریریں سننے کو دور دور سے آتے تھے اور گھنٹوں ان کی تقریریں ہوتی، یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیر نصیر نے ان اپنی تقریروں سے بہت سی برائیوں اور غلط رسموں کو دور کر دیا، وہ روایت پسند صوفی نہیں تھے، وہ کہتے تھے مجھے پیر مہر علی شاہ کے پڑپوتے ہونے کی وجہ سے ہاتھ نہ چومو‘‘ ان کا ماننا تھا کہ انسان اپنے کردار اور اچھائی کی وجہ سے یاد کیا جائے نہ کہ اپنے اسلاف کی اچھائیوں کے ذریعہ۔

    پیر نصیر فرماتے ہیں کہ

    خم ہے سرِ انساں تو حرم میں کچھ ہے

    لوگ اشک بہاتے ہیں تو غم میں کچھ ہے

    بے وجہ کسی پر نہیں مرتا کوئی

    ہم پر کوئی مرتا ہے تو ہم میں کچھ ہے

    وہ کئی خوبیوں کے مالک تھے، ان کی شاعری، تقریریں، کتابیں، اچھائی اور برائیوں میں تمیز، خانقاہی اور درگاہی کلچر کی اصلاح اور نغمہ و موسیقی سے بھی انہیں گہری دلچسپی تھی، وہ راگ منعم، راگ خسرو اور جونپوری راگ بخوبی جانتے تھے بلکہ نصرت فتح علی خاں نے ان کا کلام ان کے بنائے ہوئے دھن پر ہی پڑھا ہے، نصرت نے پیر نصیر کے یہ کلام پڑھے ہیں۔

    (۱)آستاں ہے یہ شاہے ذیشاں کے مرحبا مرحبا

    (۲)ان کے اندازِ کرم ان پے وہ آنا دل کا

    (۳)آپ اس طرح سے ہوہش اڑایا نہ کیجیے

    (۴)مری زیست پر مسرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگا

    ایک انٹرویو میں نصرت نے آپ کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔

    آج کے اس دور میں پیر نصیر جیسے لوگ کم اور مشکل سے ہی ملتے ہیں، میں انہیں مل تو نہیں سکا لیکن ان کے بارے میں جو کچھ تھوڑا بہت پڑھا اور سنا ہے اس سے تو بڑے انقلابی قسم کے انسان معلوم ہوتے ہیں، باقی آپ کی شاعری اور خدمات و معاملات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے، پیر نصیر کی طرف میں ذاتی دلچسپی بڑھنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ میرے چھوٹے بھائی شاہ طیب اللہ شایان سلمہٗ انہیں بہت دنوں سے پڑھتے تھے اور ان کی غزلوں اور نعتوں کا عمدہ انتخاب مجھے بھیجا کرتے تھے، دھیرے دھیرے دلچسپی بڑھتی گئی اور پیر نصیر کی طرف کھیچتا چلا تھا، ہندوستان یا پھر پاکستان کا کوئی ایسا نغمہ نگار نہ ہوگا جنہوں نے پیر نصیر کا کلام نہ پڑھا یا سنا ہو، ہر چھوٹے بڑے کہیں نہ کہیں ان کی غزلیں یا پھر نعتیں گنگناتے ہوئے کہیں نہ کہیں مل ہی جائیں گے، یہ مضمون بھی شایان سلمہؐ ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ پیر نصیر پر ایسا تذکرہ تیار ہوگیا، موجودہ خانقاہی بچوں کے اندر بھی پیر نصیر کو لے کر کافی ہلچل ہے۔

    وہ ہمارے ہم ان کے ہو جائیں

    بات اتنی ہے اور کچھ بھی نہیں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے