Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

مراسمِ درگاہ اجمیر شریف جو روزانہ ادا ہوتے ہیں

معنی اجمیری

مراسمِ درگاہ اجمیر شریف جو روزانہ ادا ہوتے ہیں

معنی اجمیری

MORE BYمعنی اجمیری

    میں نے اس کتاب میں سابقہ وقت کے مطابق مراسم کے اوقات لکھے ہیں اور آج کل وقت میں ایک گھنٹہ بڑھا دیا گیا ہے، اس لیے ان اوقات میں ایک گھنٹہ بڑھا کر اندازہ قائم کرنا چاہیے۔

    در کشائی : گرمی کے دنوں میں ساڑھے چار بجے اور سردی کے دنوں میں پانچ بجے نور ظہور کے وقت بیگمی دالان کے شرق رویہ دروازہ پر صبح کی اذان دے کر اس کا قفل کھولا جاتا ہے، اس کے بعد دوسرا دروازہ کھولنے کے وقت صلٰوٰۃ پڑھی جاتی ہے۔

    الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ

    الصلوٰۃ السلام علیک یا نبی اللہ

    الصلوٰۃ والسلام علیک یا خیر خلق اللہ

    الصلوٰۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ

    جب اس خدمت میں شریک ہونے والے اصحاب گنبد شریف میں داخل ہو جاتے ہیں تو بیگمی دالان کا دروازہ اندر سے بند کر لیا جاتا ہے، اس وقت خانودۂ حضرات خدام ہی کے افراد گنبد شریف میں رہتے ہیں دوسرے اصحاب داخل نہیں ہو سکتے۔

    خدمت : گنبد شریف میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے مزار شریف کے اندرونی احاطہ کا فرش بڑے فراشے سے صاف کیا جاتا ہے پھر مزار شریف کی چادر گل (پھولوں کی سیج) اتار کر چنور سے پھول صاف کر لیتے ہیں پھر غلاف شریف کو سمیٹ کر لوح مزار پر رکھ دیتے ہیں اور چنور سے تختِ مزار کو صاف کر لیتے ہیں اور یہ سب پھول ایک جھاب میں لے کر حضرت بی بی حافظ جمال کے مزار شریف پر بجھوا دیتے ہیں اور حضرت کے مزار پُرانوار پر تازہ پھولوں کی چادریں چڑہاتے ہیں۔

    اس کے بعد دونوں نقروی کٹہروں کے درمیانی حصے اور بیرونی حصے کا فرش فراشے سے صاف کرتے ہیں، اس کے بعد گنبد شریف کے شرق رویہ اور جنوب رویہ دونوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور زیارت کرنے والے جوق در جوق داخل ہوتے ہیں، درگاہ شریف کی یہ رسمِ قدیم’’خدمت‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔

    نوٹ : بڑا فراشہ چنور جھاب فراشہ ان چاروں کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

    بڑا فراشہ : ایک بانس پر مور کے پروں کا مٹھا بندھا ہوا ہوتا ہے اور یہ پربانس سے تقریباً ڈیڑھ دو بالشت باہر نکلے ہوئے ہوتے ہیں، اس بانس پر کپڑا چڑھا کر سوت کی موٹی ڈوری سے اس کی بندش کر دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی مخروطی شکل بن جاتی ہے، جس طرف پروں کا گچھا ہوتا ہے، اسی طرف سے اس کو استعمال کرتے ہیں۔

    یہ بڑا فراشہ مزار شریف کے اندرونی احاطہ کا فرش صاف کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    چنور : مور کے پروں کی سفید تیلیوں کو چھیل کر ان کے نرم اور ملائم لمبے لمبے چھلکوں کو جمع کرکے ایک طرف سے باندھ لیا جاتا ہے اور اس پر چاندی کا خوبصورت دستہ چڑھا ہوا ہوتا ہے، اس کو سنور کے وزن پر بلا اعلان نون چنوز اور مورچھل کہتے ہیں، اس سے مزار شریف اور تختِ مزار شریف کے پھول صاف کیے جاتے ہیں۔

    جھاب : ایک بڑے خوان کی طرح بانس کی پتلی پتلی کھپچیوں کی بنی ہوئی ہوتی ہے اور اس پر جگناتی دیستی موٹی ململ یا لٹطے کا لال کپڑا سلا ہوا ہوتا ہے، اس کو جھاب کہتے ہیں۔

    فراشہ : مور کے پروں کی ایک لمبی جھاڑو جو دونوں نقروی کٹہروں کے درمیانی اور بیرونی فرشِ گنبد شریف کی صفائی کے لیے استعمال کی جاتی ہے اس کو فراشہ کہتے ہیں۔

    صندل مالی : کوئی موسم ہو، روزگانہ ٹھیک تین بجے اور پنجشنبہ کے دن ڈھائی بجے سہ پہر کو مزار شریف پر صندل چڑھایا جاتا ہے، اس وقت بھی صبح کی طرح خدمت ہوتی ہے لیکن چادرِ گل نذر کرنے سے پہلے مزار شریف کی تختی پر صندل اور عطر بھی چڑھاتے ہیں اور اگر مزار شریف کا غلاف تبدیل کرنا ہوتا ہے تو غلاف بدل دیتے ہیں اور اتارا ہوا غلاف توشہ خانہ میں رکھ دیتے ہیں، اس صندل مالی کے وقت حضرات خدام خواجہ کے علاوہ زائرین بھی گنبد شریف میں حاضر رہ سکتے ہیں۔

    کی تختی پر صندل اور عطر بھی چڑھاتے ہیں اور اگر مزار شریف کا غلاف تبدیل کرنا ہوتا ہے تو غلاف بدل دیتے ہیں اور اتارا ہوا غلاف توشہ خانہ میں رکھ دیتے ہیں، اس صندل مالی کے وقت حضرات خدام خواجہ کے علاوہ زائرین بھی گنبد شریف میں حاضر رہ سکتے ہیں۔

    دو توشہ خانے : گنبد شریف میں مشرقی جانب دو حجرے ہیں ہر ایک حجرہ توشہ خانہ کہلاتا ہے۔

    (ا) ایک حجرہ بیگمی دالان کے شرق رو بہ دروازے سے جانب شمال ہی جس میں روزانہ کے استعمال غلاف اور نیمنے اور نقروی چیزیں محفوظ رہتی ہیں، اس پر صرف ایک قفل لگا رہتا ہے جس کی کنجی اس دن کے باری دار (کلیہ بردار) کے پاس رہتی ہے۔

    (نوٹ ) نیمہ لٹھے کے اف پارچہ کو کہتے ہیں جو غلاف کے نیچے لوح مزار پر اس لیے رکھا جاتا ہے کہ غلاف شریف پر مزار پُرانوار کے عطر و صندل کا نشان نہ پڑنے پائے۔

    (۲) دوسرا حجرہ بیگمی دالان کے شرق رو بہ دروازہ سے جانب جنوب ہے اس میں مزار شریف کے پرانے غلاف اور طلائی و نقروی اشیا محفوظ رہتی ہیں اور وقف درگاہ شریف کا شاہجہانی فرمان بھی اسی توشہ خانہ میں محفوظ ہے، اس حجرے پر سات قفل لگے ہوئے ہیں، جن کی ایک ایک کنجی ہر دن کے مشار الیہ کے پاس رہتی ہے اور جب تک یہ ساتوں مشارہ الیہم جمع نہیں ہوتے ہیں، یہ حجرہ (توشہ خانہ) نہیں کھلتا ہے۔

    مشارالیہ : حضرات خدام نے اپنی پوری قوم کو سات اندانوں پر تقسیم کر کے ہر خاندان کے ایک نمائندے کو ہفتہ کے ساتھ دنوں میں سے ایک دن کا مشار الیہ قرار دیا ہے، چنانچہ ان سات قفلوں میں سے ایک ایک قفل کی کنجی ایک ایک مشار الیہ کی تحویل میں رہتی ہے۔

    ڈنکا روزانہ مغرب کی نماز سے تھوڑی دیر پہلے خانوادہ حضرات خدام میں سے تین اصحاب درگاہ شریف کی دیگِ خرد کے متصلہ حجرۂ روشنی سے ویسی موم کی بتیاں لے کر چلتے ہیں جب یہ اصحاب صحن چراغ میں پہنچتے ہیں تو درگاہ شریف کا نقارچی بنگال کے نقارۂ داؤدی پر چوب لگاتا ہے، جس کو متوسلینِ درگاہ شریف ڈنکا بج گیا، ڈنکا ہوگیا، ڈنکا پڑگیا، بولتے ہیں۔

    (نوٹ) ڈنکا بلا اعلانِ نون بروزنِ گنگا بولتے ہیں۔

    روشنی یہ تینوں اصحاب مسجدِ محمودی کے صحن میں ہوتے ہوئے بیگمی دالان کے دروازے سے گنبد شریف میں داخل ہوتے ہیں، اس وقت گنبد شریف کے اندر خاصی بھیڑ ہوتی ہے اور مزار شریف کے عربی حصہ میں نقروی کٹہرے کے باہر گنبد شریف کی عربی دیوار سے لگے ہوئے چار خدام صاحبان ایک صف میں کھڑے رہتے ہیں اور ان کے سامنے گنبد شریف کے چاروں کونوں پر رہنے والی چار نقروی قندیلیں ایک قطار میں رکھی ہوتی ہیں جن میں آنے والے تین اصحاب میں سے ایک صاحب موم بتیاں روشن کرتے ہیں اور پھر یہ چاروں اصحاب چاروں قندیلیں اپنے سر پر اٹھا لیتے ہیں اور آن میں سے ایک صاحب جو قرآن شریف کی محراب سے جانب جنوب پہلے نمبر پر کھڑے ہوتے ہیں وہ چند فارسی اشعار منقبت پڑھتے ہیں اور ہر چوتھے مصرعہ پر جملہ حاضرین بآواز بلند آمین کہتے ہیں، گمان غالب یہ ہے کہ یہ اشعار منقبت عہد مغلیہ کے دورِ متوسط میں تصنیف ہوئے ہیں۔

    خواجۂ خواجگاں معین الدین

    اشرف اؤلیائے روئے زمین

    آفتاب سپہر کون و مکاں

    بادشاہِ سریر ملک یقیں

    در جمال و کمال او چہ سخن

    ایں مبین بود بحسن حصین

    مطلعے در صفاتِ او گفتم

    در عبارت بود چو درّ ثمین

    اے درت قبلہ گاہِ اہل یقیں

    بر درت مہر و ماہ سودہ جبیں

    روئے بر در گہت ہمیں سایند

    صد ہزاراں ملکِ چو خسرو چین

    خادمانِ درت ہمہ رضواں

    در صفا روضۂ ات چو خلدِ بریں

    ذرۂ خاکِ او عبیر سرشت

    قطرۂ آب او چو ماءِ معیں

    الٰہی تا بود خورشید و ماہی

    چراغِ چشتیاں را روشنائی

    شاہی گھڑیال : عہد مغلیہ سے یہ طریقہ جاری ہے کہ درگاہ شریف کی مسجدوں میں جب عشا کی اذان ہوتی ہے تو نقار خانہ پر دو گھنٹے بجتے ہیں اور جب جماعت کھڑی ہوتی ہے تو تین گھنٹے بجتے ہیں اور جب نمازی سنتوں اور نفلوں سے فارغ ہوتے ہیں تو چار بجتے ہیں اور چار بجے گنبد شریف کے شرقی اور جنوبی دونوں طرح بیرونی صحنوں میں قوالی ہوتی ہے، تقریباً بیس پچیس منٹ بعد پانچ بجتے ہیں اور پانچ بجے گنبد شریف میں تخلیہ ہو جاتا ہے، فراشے سے جاروب کشی ہوتی ہے، جب فراشہ دینے والے تینوں اصحاب باہر آ جاتے ہیں تو چھ بجتے ہیں۔

    تین فراشے : جب گھڑیالی نقار خانہ پر پانچ بجاتا ہے اور درگاہ شریف کا ایک مقررہ ملازم بیگمی دالان کی چوکھٹ کے سامنے کھڑے سے ہو کر بلند آواز سے یہ کہتا ہے۔

    پانچ بج گیے ہیں صاحب، اس آواز کے بعد گنبد شریف میں تخلیہ کرا دیا جاتا ہے اور گنبد شریف کے مشرقی و جنوبی دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، تخلیہ کے بعد نقروی کٹہرے پر جو موم بتیاں روشن ہوتی ہیں وہ گل دی جاتی ہیں البتہ ان چار قندیلوں کی موم بتیاں روشن رہنے دی جاتی ہیں جو گنبد شریف کے اندر چاروں کونوں میں رکھی ہوتی ہیں (یہ موم بتیاں رات بھر روشن رہتی ہیں) اور گنبد شریف میں جو اگر دانی قرآن شریف کی محراب کے مقابل نقروی کٹہرے سے متصل رکھی رہتی ہے، اس کے باہر وائے مرمریں عودان میں جھاڑ کر صاف کیا جاتا ہے اور صاف کر کے گنبد شریف کے اندر قرآن شریف کی الماری کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے، اس وقت خانوادۂ حضراتِ خدام میں سے تین اصحاب گنبد شریف میں رہتے ہیں اور ہر ایک کے پاس ایک فراشہ ہوتا ہے، ان کے علاوہ چوتھا شخص گنبد شریف کے اندر داخل نہیں ہو سکتا۔

    یہ تینوں اصحاب یکے بعد دیگرے گنبد شریف کے فرش اور دونوں نقروی کٹہروں کے درمیانی حصہ میں جاروب کشی کرتے ہیں، جس کا طریقہ یہ ہے کہ شمالی و مشرقی توشہ خانہ کے سامنے سے فراشہ دنیا شروع کیا جاتا ہے اور سرہانے سے قرآن شریف کی محراب کے سامنے والے فرش کو صاف کرتے ہوئے مزار شریف کے پائیں کی طرف آ جاتے ہیں اور یہاں پھول اور گرد جمع کر دیتے ہیں، اس کے بعد اسی طرح اسی رخ سے نقروی کٹہروں کے درمیانی فرش کی صفائی کی جاتی ہے اور پائیں میں آکر پہلے دونوں کٹہروں کے باقی ماندہ درمیانی فرش پر فراشہ دیتے ہیں اور پھول یا گرد کو لاکر پائیں میں جمع شدہ پھولوں کو لیتے ہوئے اور فراشہ دیتے ہوئے اسی مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سے فراشہ دنیا شروع کیا تھا (یعنی شمالی و مشرقی توشہ خانہ کے پاس) اور اس طرح جمع شدہ پھول اور گرد اٹھا کر بیگمی دالان کے شرق رویہ دروازہ سے باہر نکل جاتے ہیں۔

    دوسرے صاحب بھی اسی طرح فراشہ دے کر باہر آ جاتے ہیں، آخر میں تیسرے صاحب مذکورہ طریقہ کے مطابق پہلے دونوں کٹہروں کے درمیانی حصہ کی مکمل صفائی کر لیتے ہیں اور پھر بیرونی فرش گنبد میں جاروب کشی کرنے کے بعد باہر آتے ہیں، اس خدمت کو درگاہ والوں کی اصطلاح میں ’’فراشہ ہو رہا ہے‘‘ بولتے ہیں۔

    کڑکا : تیسرے صاحب جب بیگمی دالان کے دروازے سے باہر نکلتے ہیں تو مقررہ ملازم درگاہ بیگمی دالان سے دوڑتا ہوا جاتا ہے اور صحن چراغ سے آواز لگاتا ہے، ’’گھڑیالی چھ بجا‘‘ چنانچہ گھڑیالی چھ بجاتا ہے، اس وقت گھنٹے کی آواز سنتے ہی گنبد شریف کے جنوب میں بیٹھ کر گانے والے قوال قوالی ختم کر دیتے ہیں اور بیگمی دالان کے سامنے والے قوال گانا ختم کرکے فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں اور کھڑے ہو کر قدیم زمانہ کے کچھ اشعار منقبت گاتے ہیں، جب تک قوال یہ اشعار گاتے رہتے ہیں، ان اشعار کو کڑکا کہتے ہیں اور اس منقبت سرائی کے لیے کڑکا ہونا، کڑکا گانا، کڑکا پڑھنا بولتے ہیں، مولانا معینیؔ مرحوم کا شعر ہے۔

    سنا کرتے ہیں رعد اور برقؔ دونوں دم بخود ہوکر

    پڑھا جاتا ہے جب کڑکا معین الدین چشتی کا

    ’’کڑکا‘‘

    (جس کی راگنی کدارا اور تال جھپ تال ہے)

    ہے تو صحیح معین الحق بدہ سنوارا

    چشتی چراغ جگ میں اجارا

    ہے تو صحیح معین الحق بدہ سنوارا

    چتر چتر اون برن کیے

    باون جتن ہر جوگی اجیپال باجا

    اُڑ چلو جب ہی پیر حکم کیو

    جب سر کو سنبھال کو سن اتارا

    ہے تو صیح معین الحق بدہ سنوارا

    تو تھمب دنیا دین بھیو

    ہندل ولی نور ہدیٰ حور ہدیٰ ہر دوارا

    بھیو راجہ گھیر لئین اجمیر

    جب کیو اسلام توڑا کفارا

    ہے تو صیحح معین الحق بدہ سنوارا

    کفر جن توڑے اسلام کیو

    جنے گردنے شان دربار باجا

    اتر، دکھن، پورب پچھم

    پیروں کی سنی مکے آواجا

    دین کو تھمب معین الدین خواجہ

    بجان من یان، دین کو تھمب معین الدین خواجہ

    چتر دولہا بنے خواجہ حسن دان

    ایک ہی معجزہ داند بتھارا

    خواجہ دین کو تھمب معین الدین خواجہ

    تم بڑے سلطان حضرت چشتی

    بڑے تخت اور ملک تم کو ہی چھا جا

    روڑا مٹھو پر اپنا رحم کیجے

    دل کا درد دور کرو خواجہ خواجہ

    دین کو تھمب معین الدین خواجہ

    (نوٹ) (۱) یہ اشعار عہدِ اکبری یا عہدِ جہانگیری کی تصنیف ہیں، اب تک کسی کاغذ پر درج نہیں ہوئے، البتہ قوالانِ درگاہ نسلاً بعد نسل گاتے چلے آ رہے ہیں، بعض الفاظ بالکل سمجھ میں نہیں آتے، ممکن ہے کہ اصل الفاظ کی صورتیں مسخ ہوگئی ہوں، اشعار کے تسلسل کا بھی کوئی اطمینان نہیں ہے تاہم جو اشعار سمجھ میں آتے ہیں وہ بالکل صاف اردو میں ہیں مثلاً

    روڑا مٹھو پر اپنا رحم کیجیے

    دل کا درد دور کرو خواجہ خواجہ

    (۲) کہتے ہیں کہ روڑا مِٹھو فن موسیقی میں با کمال استاد تھے، جن کو عہد جہانگیری میں رانا اودے پور اپنے ہاں لے گیے تھے، چنانچہ ان کی دختری اولاد ابھی تک ریاست کی ملازم ہے۔

    روڑا مِٹھو کے چلے جانے کے بعد عہد شاہجہانی میں اللہ دین مسکین کا تقرر بحیثیتِ قوال درگاہ ہوا۔

    دروازے معمول : جب قوال یہ کڑکا گا چکتے ہیں تو گنبد شریف کے شرق رو بہ پہلے اور دوسرے دونوں دروازوں پر بھی قفل لگا دیے جاتے ہیں اور اس طرح دروازہ مقفل کر دینے کو درگاہ شریف کی اصطلاح میں دروازہ معمول ہونا کہتے ہیں، ان دروازوں کی کنجیاں یوسیہ باریدار (کلید بردار) کے پاس رہتی ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے