لکھنؤ کا سفرنامہ
لکھنؤ کے متعلق برج نرائن چکبستؔ نے بہت پہلے ایک ایسا شعر کہا تھا جو آج بھی اس شہر کے ماضی کی دھندلی مگر پررونق تصویر آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے۔
زبانِ حال سے یہ لکھنؤ کی خاک کہتی ہے
مٹایا گردشِ افلاک نے جاہ و حشم میرا
یہ شعر صرف ایک جملۂ ماتم نہیں بلکہ تاریخِ اودھ کی مکمل ترجمانی کرتا ہے، جب جاہ و جلال کے قصر، رقص و سرود کی محفلیں اور تہذیب کے نمونے سیاسی انحطاط کے ساتھ مٹی میں مل گیے۔
دہلی کے بعد ہندوستان کا دوسرا اجڑنے والا شہر یہی لکھنؤ تھا، مرزا ہادی رسواؔ نے اس لمحۂ زوال کو کس دردمند لہجے میں سمو دیا ہے۔
دلی چھٹی تھی پہلے، اب لکھنؤ بھی چھوڑیں
دو شہر تھے یہ اپنے، دونوں تباہ نکلے
کیا خوب نشاندہی ہے کہ جو دو شہر کبھی فن، تہذیب، علم اور عشرت کے علمبردار تھے، اقتدار کی شکست و ریخت اور نوآبادیاتی آندھیوں نے انہیں کھنڈر اور ماضی کا افسانہ بنا دیا۔
تباہی اور بربادی کے کئی مراحل سے گزرنے کے باوجود بھی یہ شہر لکھنؤ آج بھی ہندوستان کے مقبول ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے، اس کی دلکشی اور جمالیاتی کشش آج بھی مسافروں کو ٹھہرنے پر مجبور کر دیتی ہے، کچھ یہی کیفیت میرے ساتھ بھی پیش آئی، 8 نومبر 2021ء، سوموار کے دن میں دہلی سے لکھنؤ کے لیے روانہ ہوا اور علی الصباح چھ بجے ہماری گاڑی چارباغ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی، اسٹیشن پر قدم رکھتے ہی یوں محسوس ہوا گویا کسی نواب کے محل یا اس کی سیرگاہ میں داخل ہو رہا ہوں، حیرت و استعجاب کے عالم میں ادھر ادھر تکتا، اپنے ذہن پر زور ڈالتا رہا کہ ہندوستان میں اس طرز کا ریلوے اسٹیشن کہاں پایا جاتا ہے؟
کچھ دیر کے تأمل کے بعد تاریخ نے سرگوشی کی کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں تم اودھ کے نواب کی تعمیرات کا ایک جھلکتا ہوا عکس دیکھ رہے ہو، جسے آج حکومت نے ریلوے اسٹیشن میں بدل دیا ہے ہم نے چارباغ اسٹیشن کا ہر زاویہ بغور دیکھا، اس کی بلندی و وسعت، پُرشکوہ محرابیں، بلند پایے اور دلکش نقش و نگار، سب کچھ اس شان سے آراستہ تھا کہ آنکھیں دیکھتی رہ جائیں، لال چونے سے رنگا ہوا نواب صاحب کا یہ چار باغ آج بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ لکھنؤ کی خوبصورتی اور ترقی کا نشانِ فخر ہے، ہم جیسے مسافر تو اسی خیال میں کھو گئے کہ انیسویں صدی میں یہ باغ کس قدر سرسبز، شاداب اور دلنشیں ہوا کرتا ہوگا؟
خیر، اشراق کے وقت ہم حضرت مخدوم شاہ مینا قدس سرہٗ کے آستانے پر پہنچے، آپ اودھ کے اؤلیائے صفا میں بلند مقام رکھتے ہیں اور روحانی تاریخ کا درخشاں باب ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ حضرت مخدوم شاہ مینا کا اصل نام شیخ محمد تھا اور آپ کے والد بزرگوار کا نام شیخ قطب الدین تھا، وہ دہلی سے جون پور آئے اور پھر وہاں سے دَلمؤ میں سکونت اختیار کی، بچپن ہی سے آپ کی عادات و اطوار سے آثارِ ولایت نمایاں تھے، ابتدائی تعلیم و تربیت شیخ قوام الدین کی زیر نگرانی دس برس تک جاری رہی، ان کے وصال کے بعد، وصیت کے مطابق آپ نے پہلے ان کے خلیفہ قاضی فریدون سے شرحِ کافیہ پڑھی اور پھر شیخ اعظم سے کتاب الوقایہ کا درس حاصل کیا۔
روایت ہے کہ آپ ہمیشہ باوضو رہا کرتے تھے، عینالولایت میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک مرتبہ شیخ سارنگ نے آپ کو کسی شہر کی جانب روانہ کیا، جب واپسی پر آپ دوبارہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو شیخ نے دریافت فرمایا کہ اس شہر میں ایک اور درویش موجود تھے، تم نے ان سے ملاقات کیوں نہ کی؟ آپ نے نہایت اخلاص سے عرض کیا کہ مجھے تو آپ ہی کی محبت کافی ہے اس جواب پر شیخ نے خوش ہوکر آپ کو خرقۂ خلافت سے سرفراز فرمایا۔
آخر عمر میں آپ چھ ماہ تک علیل رہے اور بالآخر 23 صفر 884ھ کو وصال فرمایا، آپ کا مزارِ اقدس نہایت پرسکون و باوقار مقام پر واقع ہے، مزار سے متصل دائیں جانب آپ کے برادرِ خورد حضرت احمد مدفون ہیں، نیز دو اور قبریں بھی موجود ہیں جن پر کتبے ثبت نہیں ہیں۔
آستانے کے ساتھ ایک کشادہ و خوبصورت مسجد واقع ہے، جس کی تعمیر مہاراجہ محمد اعجاز رسول خاں (جہانگیر آباد) نے 1343ھ میں کروائی، اس کا قطعۂ تاریخ معروف شاعر عزیزؔ صفی پوری نے رقم کیا، آستانے کی جدید تعمیر موجودہ سجادہ نشیں شیخ راشد علی مینائی (فرزند شیخ شاہد علی مینائی) نے 12 نومبر 2007ء تا 20 فروری 2008ء کے درمیان مکمل کروائی۔
آستانے سے محض دس قدم کے فاصلے پر دائیں سمت ایک اور بزرگ حضرت اؤلیا شہید کا مزار و حجرہ واقع ہے، جس پر سنہ 1027ھ کندہ ہے، وہاں پہنچ کر دل کو عجیب سی تسکین ملی، یوں لگا جیسے روح کو کسی مقدس مہک نے چھو لیا ہو۔
جب ہم فاتحہ سے فارغ ہوئے تو نگاہ سامنے واقع کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی پر جا ٹکی، واقعی اس یونیورسٹی کا باغ انتہائی دلکش و سحر انگیز تھا، ہم نے قریب دو گھنٹے وہاں کی فضا اور مناظر کا لطف اٹھایا پھر صبح کے ناشتے سے فارغ ہو کر برادرِ عزیز شایان ابوالعلائی سلمہٗ کے ہمراہ حسین آباد کی جانب روانہ ہوئے، رکشے والے کے پہیوں کی تیزی کے ساتھ ساتھ ہمارا دل بھی بے قابو ہو رہا تھا، ’’الامان و الحفیظ‘‘ کرتے ہوئے ہم حسین آباد پہنچے، جہاں دائیں بائیں بلند و بالا عمارتیں ایک دوسرے سے گویا برتری کی دوڑ میں شامل تھیں۔
ہم نے نواب آصف الدولہ (1748ء–1797ء) کا تذکرہ اپنے بزرگوں سے بارہا سنا تھا اور اب وہ تمام حکایات اور مناظر آنکھوں کے سامنے حقیقت کا روپ دھارے ہوئے تھے، بہترین سے بہترین، نفیس سے نفیس عمارتیں لکھنؤ کی شان و شوکت اور اس کے معماروں کی فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھیں، پورا حسین آباد گویا نواب صاحب کی کاریگری اور ذوقِ جمالیات کا زندہ نمونہ ہے۔
تاہم ان تمام عمارات کی تفصیلی سیر دن بھر میں ممکن نہ تھی، لہٰذا ایک رکشے والے سے طے کیا اور روانہ ہو گئے، وہ اپنی خاندانی تہذیب کا مظاہرہ یوں کر رہا تھا کہ بڑے ادب سے بولا کہ تشریف رکھیے! یہ سن کر ہم ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے اور دل ہی دل میں لطف لینے لگے کہ ایک عام رکشے والا بھی اتنی شستہ اور مہذب زبان استعمال کر رہا ہے، استفسار پر اُس نے بتایا کہ وہ لکھنؤ کا آبائی باشندہ ہے لیکن اب چوں کہ شہر میں دوسرے علاقوں سے آ کر بسنے والے لوگ زیادہ ہو گیے ہیں، اس لیے لکھنوی زبان آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے، میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ زبان کی صحت و ترقی براہِ راست تہذیب و تمدن سے وابستہ ہوتی ہے، جہاں تہذیب پروان چڑھتی ہے، وہیں زبان بھی بلند معیار کو چھوتی ہے اور جہاں تمدن زوال کا شکار ہو، وہاں زبان بھی غیر معیاری ہو کر اپنی اصل لطافت کھونے لگتی ہے۔
الغرض ہم لوگ امام باڑہ کی طرف روانہ ہوئے، یہ عظیم الشان عمارت لکھنؤ میں دریائے گومتی کے جنوبی کنارے پر واقع ہے اور حسین آباد انٹر کالج کے مغرب میں ایک وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔
یوں ہی باتوں باتوں میں ہم رومی دروازہ جا پہنچے، یہ عظیم دروازہ نواب آصف الدولہ کی اہلیہ کی نگرانی میں 1784ء میں تعمیر کروایا گیا تھا، اس کی خوبصورتی اور فنِ تعمیر کچھ اس انداز کا ہے کہ اگر آپ چھوٹے امام باڑے کی طرف سے آئیں تو ایک کشادہ محرابی دروازہ آپ کا خیرمقدم کرتا ہے اور واپسی پر دیکھیں تو تین چھوٹے دروازے آپ کی توجہ کھینچ لیتے ہیں۔
روایت ہے کہ نواب آصف الدولہ کی اہلیہ نے دروازے کے بالائی حصے میں لونگ کا نقش بنوایا تھا، ابتدا میں یہ نقشے 27 عدد تھے لیکن وقت کے ساتھ چند جھڑ گئے اور اب محض 22 باقی رہ گئے ہیں، اس دروازے کی ایک اور دلکش خصوصیت یہ ہے کہ اگر آپ اسے الٹا دیکھیں تو اہلیہ کے گلے کا ہار سا نقش ابھرتا دکھائی دیتا ہے۔
اب ہم بڑا امام باڑہ میں داخل ہوتے ہیں، اس کا ٹکٹ محض 50 روپے ہے، اس عمارت کو امام باڑہ اور آصفی امام باڑہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جو نواب آصف الدولہ کی زیر نگرانی تعمیر ہوا، یہ عمارت دس اہم حصوں پر مشتمل ہے، جن میں رومی دروازہ، پہلا مرکزی دروازہ، نوبت خانہ، گول صحن و سبزہ زار، مسجدِ آصفی، باؤلی اور بھول بھلیاں شامل ہیں۔
اگر آپ محرم کے مہینے میں یہاں آئیں، تو حسین آباد کا منظر گویا ایران کی روحانی و تہذیبی فضا کی یاد دلاتا ہے جو لوگ ایران کے ذوقِ تعمیر، تہذیب اور روحانیت سے آشنا ہیں، وہ اس منظر کو بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔
اس امام باڑے کی تعمیر کے حوالے سے کئی دلچسپ قصے بیان کیے جاتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ 1784ء کے آس پاس اودھ شدید قحط سالی کا شکار تھا، جس میں شہر کا ہر امیر و غریب متاثر تھا، ایسے نازک وقت میں نواب آصف الدولہ نے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی نیت سے اس عظیم الشان امام باڑے کی بنیاد رکھی، چوں کہ بہت سے معزز اور خوشحال لوگ دن میں مزدوری کرنے سے شرماتے تھے، اس لیے تعمیر کا کام دن کے ساتھ ساتھ رات میں بھی جاری رکھا گیا تاکہ اہل ثروت افراد رات کی تاریکی میں آ کر مزدوروں میں شامل ہو سکیں، یوں نہ صرف اودھ کے بگڑتے معاشی حالات میں بہتری آئی بلکہ ایک عظیم یادگار بھی تعمیر ہو گئی۔
ہم مرکزی دروازے سے داخل ہوئے اور وسیع و عریض باغ کی سیر کرتے ہوئے آصفی مسجد تک پہنچے، جو امام باڑے کی تعمیر سے قبل نواب آصف الدولہ نے بنوائی تھی، اس مسجد میں ہزاروں نمازیوں کی گنجائش ہے، سہ گنبد، دو بلند و بالا میناروں، لمبی سیڑھیوں، کشادہ کمروں اور سیاہ رنگت کے سنگِ تعمیر کے ساتھ یہ مسجد ہندوستان کی چند خوبصورت ترین مساجد میں شمار ہوتی ہے۔
اس مسجد کے پہلے امام معروف شیعہ عالم مولانا سید دلدار علی نقوی تھے، جن کی ولادت 1753ء اور وفات 1820ء میں ہوئی۔
اب ہم لوگ وسطی دالان کی طرف بڑھ رہے تھے، یہ دالان 303 فٹ طویل، 53 فٹ چوڑا اور 63 فٹ بلند ہے اور دنیا کے بلند و بالا، بےمثال دالانوں میں شمار ہوتا ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کی تعمیر میں نہ لوہا استعمال ہوا، نہ لکڑی بلکہ خالص ڈانٹوں کے سہارے اسے اس کمال کے ساتھ جوڑا گیا ہے کہ دیکھنے والا داد دیے بغیر نہیں رہتا۔
دوسرے زائرین کی طرح ہم بھی اپنے قدم آہستہ آہستہ، عقیدت و تعظیم کے ساتھ اس دالان میں داخل ہوئے، یہی وہ جگہ ہے جہاں نواب آصف الدولہ محوِ خواب ہیں، دالان میں پانچ محرابی دروازے ہیں اور نواب صاحب کی قبر کے اردگرد نہایت حسین اور نفیس فانوس آویزاں ہیں، لوگ خاموشی اور ادب کے ساتھ اس مقام کی زیارت کرتے ہیں، کچھ مسکرا دیتے ہیں، کچھ شکر ادا کرتے ہیں مگر ہم تو ایک مختلف ہی کیفیت میں ڈوب گئے تھے، سوچ میں گم، دل پر ایک بوجھ لیے، ہمارے ذہن میں سوالات کا ایک ہجوم تھا کہ ہماری شان و شوکت کا وہ تابناک زمانہ کہاں کھو گیا؟ کیا ہماری عظمتِ رفتہ کبھی لوٹ سکے گی؟ ہمارا ماضی تو بےشک روشن تھا مگر مستقبل کا کیا؟ کیا ہم محض اسلاف کے کارناموں پر ہی جیتے رہیں گے؟ کیا ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ہمارا کوئی فکری، تہذیبی یا عملی سرمایہ ہوگا؟ حیرت اور افسوس یہ ہے کہ ہم ماضی کی رٹ لگاتے لگاتے مستقبل سے یکسر بےخبر ہو گئے ہیں۔
یہی وہ وقت تھا جب ہمیں سر سید احمد خان کا وہ خطاب یاد آیا جو انہوں نے عظیم آباد میں فرمایا تھا کہ
’’اپنے باپ دادا کی عزت و بزرگی و حشمت و منزلت پر ناز کرنا بڑی غلطی ہے، ہمارے باپ دادا اگر بہت عالی قدر تھے اور ہم نہیں ہیں تو ہم کو اس پر ناز نہیں کرنا چاہیے بلکہ رونا چاہیے کہ ہم اپنے بڑوں کا بھی نام ڈبونے والے پیدا ہوئے، اگر اولاد کی اور قوم کی تعلیم و تربیت اس سطح پر نہ ہو کہ جس زمانہ میں وہ لوگ اپنی زندگی بسر کریں گے، اس زمانے کی مناسب لیاقتیں ان میں پیدا نہ ہوں تو ضرور اگلے خاندانوں کا نام برباد ہو جاوے گا، نواب خلیل اللہ خاں شاہجہانی کا آپ لوگوں نے نام سنا ہوگا، ان کے پڑپوتے کو میں اپنی آنکھ سے دیکھا ہے کہ لوگوں کے پاؤں دابنے آتا تھا اور دوچار پیسے لے جاتا تھا، تغلق آباد کے گاؤں میں جس قدر مسلمان گھسیارے آباد ہیں جو سارے دن گھاس کھود کر شام کو بیچتے ہیں، میں نے خوب تحقیق کیا ہے کہ سلطان محمد عادل تغلق کی اولادمیں ہیں، پس اگلے بزرگوں پر فخر کرنا ایسی حالت میں کہ ہم کچھ نہیں ہیں کیا فائدہ ہے؟‘‘
ایسی ہی نصیحت آموز باتیں ہمیں حضرت شاہ اکبر داناپوری کی تصنیفات میں بھی جگہ جگہ ملتی ہیں۔
الغرض اس عظیم عمارت کا بالائی حصہ بھی نقش و نگار سے مزین ہے، روایت ہے کہ اسے مسور کی دال اور گنے کے رس کی آمیزش سے مضبوط کیا گیا، یہاں بڑے سے بڑے تعزیے، بلند علم اور دیگر مذہبی علامات نہایت وقار اور احترام سے رکھے گیے ہیں۔
اس کے بعد ہم بھول بھلیاں کی طرف روانہ ہوئے، یہ لکھنؤ کی مشہور اور حیرت انگیز سیرگاہ ہے، جہاں 489 ایک جیسے دروازے اور گھومتے چکردار راستے موجود ہیں جو ہر آنے والے کو چکرا کر رکھ دیتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ بالکونی تک پہنچنے کے 1024 راستے ہیں لیکن واپسی کے صرف دو!
یہاں کی دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، اگر آپ ایک سمت دیوار سے منہ لگا کر کوئی بات کریں تو دوسری سمت کھڑا شخص اسے بآسانی سن سکتا ہے، عمارت کی بلندی سے پورا لکھنؤ شہر دکھائی دیتا ہے، بھول بھلیاں کے بعد ہم باؤلی کی طرف بڑھے، جو ایسی حیران کن جگہ ہے جہاں اندر بیٹھا شخص باہر آنے والے کو تو بخوبی دیکھ سکتا ہے مگر باہر والا اسے نہیں دیکھ پاتا، روایت ہے کہ یہاں ایک خزانے کا راز چھپا ہے جسے انگریز تمام کوششوں کے باوجود نہ پا سکے۔
اس کے بعد ہم چھوٹے امام باڑے کی طرف روانہ ہوئے، جسے نواب محمد علی شاہ نے 1837ء میں تعمیر کرایا تھا، اگرچہ اسے چھوٹا کہا جاتا ہے لیکن یہ عمارت نہایت وسیع اور عظیم الشان ہے، یہ ہندی و ایرانی طرزِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے، جہاں حوض، باغ، مسجد اور کئی مقبرے موجود ہیں، یہاں تعزیے، چندن، موم اور ہاتھی دانت جیسی نایاب اشیا محفوظ ہیں، مختلف نوابین اور ان کے اہل خانہ کو بھی یہاں دفن کیا گیا ہے، اسی لیے اسے نوابوں کی آخری آرام گاہ بھی کہا جاتا ہے۔
اس کی تزئین بلجیئم کے کانچ، فانوس، قندیلوں، شمع دانوں اور دیوارگیر روشنیوں سے کی گئی ہے، جس کی بدولت یہ عمارت پیلس آف لائٹ کہلاتی ہے، مچھلی کی شکل کے مجسمے بھی یہاں نصب ہیں، جو نہ صرف آرائشی ہیں بلکہ بجلی کے اثرات سے عمارت کی حفاظت کے لیے بنائے گیے تھے، اسی جمالیاتی عظمت کے سبب یہ جگہ کریملن آف انڈیا بھی کہلاتی ہے۔
اس سیر کے دوران گائیڈ ہمیں ہر کمرے، دالان، باغ، عبادت گاہ اور نوادارت کی تفصیل دیتا رہا، ہم وہاں سے نکل کر گھنٹہ گھر پہنچے، جہاں ایک بڑی گھڑی نصب ہے، اس کے قریب شاہی تالاب، چاند دیکھنے کی جگہ اور پکچر گیلری واقع ہے جو 1838ء میں تعمیر ہوئی اور نوابوں کے پنسل اسکیچ، تصاویر اور قیمتی اشیا سے آراستہ ہے۔
جب ہم ان تمام جگہوں کی زیارت سے فارغ ہوئے تو شام کے پانچ بج چکے تھے، حسین آباد کی گلیوں میں قدم رکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہم ایران کی گلیوں میں پھر رہے ہوں، ایرانی چائے، ایرانی رسم و زبان کے بڑے پوسٹرز اور دیگر جھلکیاں دیکھ کر دل نے کہا کہ جیسے جونپور کو شیرازِ ہند کہا جاتا تھا، ویسے ہی شاید لکھنؤ بھی کبھی ایران رہا ہوگا!
ہم امین آباد پہنچے، جو لکھنؤ کی شاندار مارکیٹ ہے، یہاں سے ہم نے دوپلیہ کلاہ خریدنے کی سعی کی، جو لکھنوی تہذیب کا اہم حصہ ہے، مرزا انیس اور پنڈت دیا شنکر نسیمؔ جیسی شخصیات بھی ہمیشہ یہی ٹوپی پہنا کرتی تھیں۔
ایک دلچسپ واقعہ بھی یاد آیا کہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ ظفر سجاد ابوالعلائی نے امین آباد کی ایک دکان سے دوپلیہ ٹوپی خریدی اور بڑا نوٹ نکال دیا، دکاندار حیران تھا اور عین وقت پر اذان ہو گئی، شاہ صاحب مسجد چلے گیے اور نماز کے بعد بھول کر داناپور واپس آ گیے، برسوں بعد دوبارہ آ کر اس دکاندار کو قیمت ادا کی، جس پر وہ حیرت زدہ رہ گیا۔
لکھنؤ ہم پر فدا اور فدائے لکھنؤ کی تعبیر اگر دیکھنی ہو تو امین آباد کی گلیوں کا مشاہدہ کیجیے، طرح طرح کی خوبصورت اشیا، بہترین انواع و اقسام اور عیش و عشرت سے لبریز اودھی تہذیب کا ایک بڑا حصہ یہاں بستا ہے، خیر! بازار کی سیر کے بعد ہم امین آباد کے مشہور ٹنڈے کباب جسے گلاوٹی کباب بھی کہا جاتا ہے کی طرف بڑھے، ٹنڈے کبابی کی دکان پر لوگوں کا ہجوم دیدنی تھا۔
کہتے ہیں کہ بھوپال کے نواب صاحب کو کھانوں کا بڑا شوق تھا مگر آخر عمر میں دانت ٹوٹ جانے کے باعث وہ گوشت کھانے سے محروم ہو گیے، اس پر ان کے خانسامہ حاجی مراد علی نے ایسا کباب تیار کیا جو بغیر دانتوں کے بھی آرام سے کھایا جا سکتا تھا، بعد ازاں حاجی صاحب بھوپال سے لکھنؤ آئے اور 1905ء میں اکبری گیٹ کے قریب ایک چھوٹی سی دکان سے اپنی کباب فروشی کا آغاز کیا۔
ٹنڈے کا مطلب ہے وہ شخص جس کا ہاتھ نہ ہو، حاجی مراد علی کو پتنگ بازی کا جنون تھا، جس کے باعث ایک حادثے میں ان کا ایک ہاتھ ضائع ہو گیا، جو بعد میں کاٹنا پڑا، وہ پھر اپنے والد کے ساتھ دکان پر بیٹھنے لگے، ہاتھ کٹے ہونے کی وجہ سے ان کے بنائے کباب کو لوگ ٹنڈے کباب کہنے لگے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کبابوں کی تیاری میں تقریباً سو مصالحے شامل کیے جاتے ہیں اور ان کے اجزاء ترکیبی خفیہ رکھے جاتے ہیں، مختلف دکانوں سے یہ مصالحے خریدے جاتے ہیں، جن میں سے کچھ ایران اور دیگر ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں پھر یہ مصالحے گھر کے بند کمروں میں مخصوص لوگوں کے ذریعہ تیار کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ گھر کی بیٹیوں تک کو اس راز کی خبر نہیں، آج تک حاجی خاندان نے یہ نسخہ کسی کے سامنے ظاہر نہیں کیا۔
یہ چھوٹے چھوٹے ٹکیوں جیسے کباب نہایت لذیذ، نرم اور ذائقے دار ہوتے ہیں، ہم نے خوب سیر آسودہ ہو کر کھانا کھایا اور شکر و احسان کے بعد پرکاش کی ٹھنڈی ٹھنڈی کلفی بھی چکھی، یہاں کی گلابی چائے بھی خاصی مشہور ہے، اب دن بھر کی تھکن سے بدن چور چور ہو چکا تھا، سو اطمینان کا سانس لیا اور قیام کیا۔
آج 9 نومبر، منگل کی صبح ہے، چائے نوش کرنے کے بعد ہم لوگ حضرت گنج کی طرف روانہ ہوئے، یہ بازار لکھنؤ کا سب سے قیمتی اور پرشکوہ علاقہ مانا جاتا ہے، اس کی بنیاد نواب نصیرالدین حیدر شاہ (1803ء –1837ء) نے 1827ء میں چین کے بازار کی طرز پر گنج مارکیٹ کے طور پر رکھی تھی، بعد ازاں نواب محمد علی شاہ کے صاحبزادے نواب امجد علی شاہ المعروف حضرت (1801ء –1847ء) کے نام کی نسبت سے 1842ء میں اسے حضرت گنج کہا جانے لگا۔
1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد جب انگریزوں نے اقتدار سنبھالا تو اس سڑک کی مرمت کرائی گئی اور قدیم طرز کی عمارات گرا کر لندن کی سڑکوں کے نمونے پر اسے نئے سرے سے تعمیر کرایا گیا۔
یہ بازار آج بھی وسیع و عریض، کشادہ سڑکوں اور مہنگی دکانوں پر مشتمل ہے، اس کے دونوں جانب نہایت خوبصورت روشن دان، موٹے ستون اور دلکش طرزِ تعمیر کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کرسی نما اسٹینڈ نصب ہیں تاکہ راہ گیر آرام کر سکیں۔
دہلی کے سیاح اس مقام کو اکثر کنّاٹ پلیس (Connaught Place) سے تشبیہ دیتے ہیں مگر لکھنؤ کا رنگ، آہنگ اور تہذیبی نزاکت اپنی مثال آپ ہے۔
اب ہم نواب واجد علی شاہ (1822ء –1887ء) سے منسوب ایک تاریخی باغ کی طرف بڑھ رہے ہیں، یہ باغ 29 نومبر 1921ء کو پرنس آف ویلز کے استقبال کے لیے ترتیب دیا گیا تھا، بنارس سے درخت منگوائے گیے اور کچھ منتخب جانور بھی لائے گیے، یوں تقریباً تین کلومیٹر کے وسیع و عریض دائرے میں ایک حسین گرین پارک وجود میں آیا۔
بعض لوگ اسے بنارسی باغ کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن پرنس آف ویلز کی آمد کے بعد اسے باقاعدہ طور پر ایک پارک کی شکل دی گئی اور پھر یہ پرنس آف ویلز زولوجیکل پارک کے نام سے مشہور ہوا۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس کا نام بدلتا رہا، اور آج اسے نواب واجد علی شاہ زولوجیکل پارک یا سادہ الفاظ میں چڑیا گھر کہا جاتا ہے، یہاں تقریباً پانچ ہزار درخت موجود ہیں، جو شہر کے ایک بڑے حصے کو سرسبز و شاداب رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
باغ کے وسط میں سنگِ مرمر سے بنی ہوئی ایک وسیع و عریض دالان ہے، جس کے چاروں طرف دلکش جھرنے اور خوش منظر باغات موجود ہیں، یہ جگہ محض ایک تفریحی مقام نہیں بلکہ تاریخ، فطرت اور فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔
اگر آپ لکھنؤ کی سیر کے لیے عازمِ سفر ہوں تو رکشے والوں کو پیشگی تنبیہ ضرور کر دیجیے کہ آپ کو منزل کے سوا کہیں اور لے جانا مناسب نہ ہوگا۔
ہمیں تجربے سے یہ سبق ملا کہ ہر دوسرا رکشے والا سب سے پہلے ہمیں چکن کُرتا کی فیکٹری لے جاتا، شروع میں تو ایک آدھ بار کچھ خرید بھی لیا مگر جب یہ عمل بار بار دہرانے لگا تو طبیعت پر گراں گزرنے لگا، آخرکار ہمیں سختی سے منع کرنا پڑا کہ ہمیں چکن فیکٹری نہیں جانا ہے، ایک بار تجسس سے ایک رکشے والے سے پوچھا تو اس نے راز کی بات بتائی کہ بارہ گاہکوں کو چکن کُرتے کی فیکٹری لے جانے پر بطور انعام ایک کرتا دیا جاتا ہے!
لکھنؤ کے چکن کُرتے پر اگر غور کریں تو کاج کے کنارے پر رومی دروازہ کا عکس ابھرتا نظر آتا ہے، گویا شہر کی فن تعمیر اور دستکاری ایک ہی تہذیبی ریشے میں پروئے ہوئے ہیں،
اب یہاں سے نکل کر ہم لوگ امبیڈکر میموریل پارک کی طرف روانہ ہوئے، یہ جگہ نہایت خوبصورت، کشادہ اور وسیع و عریض پیمانے پر تعمیر کی گئی ہے، پارک کے بالائی حصے سے آدھا شہر بالکل صاف دکھائی دیتا ہے، یہاں مختلف ہاتھی نما مجسمے اور سنگِ مرمر پر کی گئی شاندار کاریگری نظر آتی ہے جو موجودہ دور کی تعمیراتی مہارت کا شاہکار معلوم ہوتے ہیں۔
تھوڑی دیر کے آرام کے بعد ہم لوگ نظیرآباد پہنچے، یہ بازار بھی امین آباد سے کسی طرح کم نہیں، یہاں موٹر کے پارٹس سے لے کر روزمرہ کی تمام اشیاء تک ہر چیز دستیاب ہے، خریداروں کی بھیڑ دھیرے دھیرے بڑھتی جا رہی تھی اور بازار میں رونق ہی رونق نظر آ رہی تھی، کچھ کپڑوں کی خریداری کے بعد ہم امین آباد ہوتے ہوئے حضرت گنج پہنچے، یہاں کا باسکٹ چاٹ بے حد لذیذ پایا، واقعی زبان پر دیر تک اس کا مزہ باقی رہا، آخرکار ہم لوگ چارباغ ریلوے اسٹیشن پہنچے، لکھنؤ کی سیر، بازاروں کی چہل پہل، تہذیب کی لطافت اور ادب و تاریخ کی گونج دل و دماغ پر چھا گئی تھی، اس کیفیت میں ہم سب کے لبوں پر نواب واجد علی شاہ اخترؔ کا یہ شعر بےساختہ مچل اٹھا کہ
در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہلِ وطن، ہم تو سفر کرتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.