Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت شاہ جی محمد شیر میاں : علم و عمل کے آئینہ میں

عرش پورنپوری

حضرت شاہ جی محمد شیر میاں : علم و عمل کے آئینہ میں

عرش پورنپوری

MORE BYعرش پورنپوری

    قطب الاقطاب حاجی شاہ جی محمد شیر میاں تصوف کی ایک نہایت نامور عظیم اور باکمال شخصیت کا نام ہے، جن کی شہرت نہ صرف ہند میں بلکہ عرب و عجم میں بھی ہے، آپ شریعت و طریقت کے مقتدیان میں سے ہیں، آپ احکام خداوندی کی ادائیگی اور اتباع سنت میں اپنی نظیر آپ ہیں، آپ مادر زاد ولی تھے، آپ نہ صرف ولی کامل تھے بلکہ اپنے عصر کے ایک عظیم عالم، بے نظیر عامل، مبلغ دین، مصلح ملت و ناصح معاشرہ بھی تھے، آپ کا اسم گرامی احمد شیر تھا مگر عرفِ عام میں آپ محمد شیر، شیر مصطفیٰ و شاہ جی میاں کے القاب سے مشہور ہیں۔ (مسالک السالکین)

    شاہ جی میاں بظاہر کسی مدرسے سے فاغ التحصیل نہیں تھے مگر خدا نے آپ کو علم لدنی عطا فرما کر آپ کی ذات جامع کمالات بنا دی تھی، عبدالستار بیگ شہسرامی اپنی کتاب ’’مسالک السالکین‘‘ (صفحہ؍۶۵۴) پر رقمطراز ہیں کہ

    ’’آپ کو یکا یک حضرت بلا و حضرت منصور کے واقعات پڑھنے کا شوق پیدا ہوا، فضل الٰہی سے اگلے روز ایک شخص ان قصوں کو دے گیا مگر کوئی پڑھنے والا نہیں ملا تو آپ نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ اے مالکِ حقیقی! جب قصے بھیج دیے تو اب میری یہ مشکل بھی آسان فرما دے، آپ کی زبان مبارک سے نکلے یہ الفاظ جب باب اجابت سے ٹکرائے تو خداوند قدوس کی رحمت کاملہ جوش میں آئی اور آپ پر علوم فنون کے بند دروازے کھول دیے گیے‘‘

    حدیث قدسی ہے کہ میرے ولی کی زبان سے جو بات نکلتی ہے وہ میری بات ہوتی ہے، حضور فرماتے ہیں کہ خدا کے کچھ خاص بندے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا مرتبہ یہ ہے کہ اگر وہ کسی بات پر اڑ کر خدا کی قسم کھا بیٹھیں تو خدا ان کی قسم پوری فرما دیتا ہے۔ (مسلم شریف، جلد؍۲، صفحہ؍۱۱۳)

    آپ نے جوں ہی سر اٹھا کر قصوں کو دیکھا تو از ابتدا تا انتہا پڑھتے چلے گیے پھر تو عربی، فارسی اور اردو وغیرہ کی جو بھی کتاب کھولتے پڑھتے چلے جاتے اور قرآن و حدیث اور فقہ تفسیر پر پورا عبور ہوگیا، قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر اور احادیث پاک کے مطالب و مفاہیم اور مسائل شرعی اس خوبی سے بیان فرماتے کہ بڑے بڑے علما دنگ رہ جاتے، مولانا روم کی مثنوی شریف کی تو ایسی روانی تھی کہ ہر موقع پر اس کے اشعار پڑھا کرتے تھے، مولانا محمد بشیر میاں خراسانی بریلوی فرماتے ہیں کہ اس حقیر فقیر نے بارہا پچھلی راتوں کو آپ کو بہت عمدگی کے ساتھ ایک بہت اچھے قاری کی طرح تلاوت قرآن پاک فرماتے دیکھا۔

    غلام جیلانی خاں جو شاہ جی میاں کے بھانجے ہیں، سوانح عمری شاہ جی محمد شیر کے صفحہ ۱۰۲ پر فرماتے ہیں کہ ایک روز امام احمد رضا خاں بریلوی شاہ جی میاں کے پاس تشریف لائے، بعد سلام و مصافحہ خاموش بیٹھ گیے، اس وقت آپ بیان فرما رہے تھے، اعلیٰ حضرت بغور سماعت فرمانے لگے، جب وعظ ہو چکا تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ حضور! آپ کا بیان مطابق آیت و حدیث ہے، اکثر اعلیٰ حضرت تشریف لاتے آپ کا معمول تھا کہ شاہ جی میاں سے دلیل و حجت کسی امر میں نہ فرماتے اور بے حد محبت و تعظیم فرماتے اور یہی معمول شاہ جی میاں کا بھی تھا۔

    آپ رشد و ہدایت کے لیے پہلے علم ظاہری کی راہ اپناتے، ضرورت پیش آتی تو کرامت کا ظہور فرماتے، آپ کے ظاہری اور باطنی علم کی قدر و منزلت علمی نقوش اور تعلیمی نظریات و درس و تدریس کو ان واقعات و آپ کے فرمودات سے سمجھا جا سکتا ہے۔

    حافظ امیر عقیق صاحب کے پاس دو شخص آئے اور تعویذ کی خواہش کی، اس سے پہلے شاہ جی میاں کی تعویذ لکھتے نہیں دیکھا تھا، جب لکھنے میں تاخیر ہوئی تو اچک کر دیکھا تو سات تعویذ لکھ چکے تھے، فرمایا کہ بس یا اور، اس شخص نے حیرت زدہ ہو کر عرض کیا کہ حضور مجھ سے حق تلفی ہوئی ہے، پانچ اور لوگوں نے مجھ سے تعویذ کے لیے کہا تھا مگر میں پاس ادب نہ کہہ پایا، آپ نے فرمایا کہ اپنا مطلب چاہا اور دوسروں کو چھوڑ دیا، یہ خود غرضی ہے، مولانا نسیم مصباحی بیان کرتے ہیں کہ حافظ ملت کے بڑے داماد حافظ ممتاز واصف عزیزی صاحب فرماتے ہیں کہ اکثر حافظ ملت اپنی تقریروں میں شاہ جی میاں کے علم کے متعلق بیان فرماتے تھے کہ ایک دن ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ حضور مجھے بسم اللہ کا مطلب سمجھا دیجے، یہ سن کر آپ نے بسم اللہ کے مطلب و تفسیر پر تین دن متعدد بیان فرمایا۔

    پنجاب کے دو بد عقیدہ مولوی آپ کی بارگاہ میں وسیلہ کے مسئلہ میں آپ کی ہنسی اڑانے کی غرض سے حاضر ہوئے، ان کے آنے سے پیشتر آپ بالا خانے پر تشریف لے گیے اور خادم سے سیڑھی ہٹوا دی، دونوں حاضر ہوئے اور کہنے لگے ہمیں وسیلے کے مسئلے پر آپ سے گفتگو کرنا ہے، سرکار شاہ جی میاں حضور نے فرمایا اوپر آکر بات کرو، عرض کرنے لگے حضور بغیر سیڑھی کے آپ تک کیسے پہنچیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہی تمہارے سوال کا جواب ہے، ذرا غور کرو جب تم مجھ حقیر بندہ خدا تک بغیر سیڑھی نہیں پہنچ سکتے تو اللہ و رسول تک بنا وسیلے کے کیسے پہنچو گے؟ دونوں لا جواب ہوگیے، عرض کیا کہ حضور آپ نے عملی طور پر ہماری آنکھیں کھول دیں ہیں، اب اپنے دست حق پر توبہ کروا کر اپنا غلام بنا لیجیے۔

    ایک بار سماع موتیٰ پر مولوی عبدالرشید خان اور حاجی عزیز صاحب و دیگر علما میں اختلاف ہوا، ان حضرات نے آپ کی جانب رجوع کیا، آپ حجرے سے ایک کتاب لے کر تشریف لائے اور محدث سورتی سے فرمایا کہ اسے پڑھو، بیان سماع موتیٰ پر تھا جسے سن کر سب کی تسکین ہوگئی، سب تعجب سے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے تھے۔

    حسن نظامی اپنی کتاب حزالبحر میں فرماتے ہیں کہ مجھے تسخیر جنات و ہمزاد کا بہت شوق تھا، اسی شوق کی فراوانی کے لیے میں ہند میں مشہور بزرگ اور بے نظیر عامل شاہ جی میاں کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے فرمایا کہ اے حسن! تو تسخیر جنات چھوڑ دے اور خدا اور رسول کا مسخر اور تابع دار بن جا، ساری مخلوق تیری مسخر اور تابع دار ہو جائے گی، آپ کے یہ نصیحت آمیز کلمات سن کر میرا قلب روشن ہوگیا، آیا تھا تو میرے دل میں صرف تسخیر جنات کا شوق تھا مگر جب واپس جا رہا تھا تو صرف خدا جوئی اور اتباع رسول پاک کا جذبہ لے کر واپس جا رہا تھا۔

    آپ کا وعظ تصوف و حکمت اور معرفت الٰہی سے لبریز ہوتا تھا، جس میں سوائے ذکر خدا اور ذکر رسول کے کبھی ذکر دنیا نہیں ہوتا تھا، اگر ایسا ہوتا تو بے وفائی مکر و فریب اور اس کی زیب وزینت سے دور رہنے کا ہوتا تھا، آپ فرماتے تھے کہ

    ۱۔خدا کی بارگاہ میں قبول ہوگا جو نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ کو ادا کرے اور رسول پاک اور صحابہ کے راستے پر چلے، نماز کے بغیر سب ریاضتیں بیکار ہیں، بنا نماز فقیری درویشی داغ دار ہے۔

    ۲۔ شریعت کی مثال دودھ جیسی، طریقت کی دہی جیسی، معرفت کی مکھن جیسی اور حقیقت کی خالص گھی جیسی ہوتی ہے، بس ظاہر ہے کہ طریقت، معرفت اور حقیقت سب کا دار و مدار شریعت ہی ہے۔

    ۳۔ لوگ حلال روزی کی فکر نہیں کرتے اور خدا کو تلاش کرتے ہیں۔

    ۴۔ بعض اوقات کسی کا تھوکنا بھی قابل گرفت ہو جاتا ہے۔

    ۵۔ ہم کسی کی برائی کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہیں۔

    ۶۔ پیر کامل سے اپنے مرید کا کوئی حال پوشیدہ نہیں رہتا، مرید کو چاہیے کہ پیر کے ہاتھ پر جو توبہ کی ہے اس پر قائم رہے، تب امید نجات و پیر کی امداد کی ہے، پیٹ خالی ہونے سے تین خوبیاں پیدا ہوتی ہیں، حکمت، بندگی اور ولایت۔

    ۸۔ پیٹ بھرا ہونے سے تین برائیاں پیدا ہوتی ہیں، غفلت، شہوت اور علت۔

    ۹۔ اچھا کام خدمتِ خلق ہے اور بدترین کام اس کی دل آزاری ہے۔

    ۱۰۔ مؤمن ہونا گویا خوش اخلاقی، نیک طبیعت اور بلند کرداری ہے، نہ برا کرے نہ کرنے دے۔

    ۱۱۔ درویشی نعمت حق ہے مگر درویشوں کی صحبت سے رنگت لاتی ہے، درویشوں فقیروں سے دوری دنیا داری ہے، زبان کے ذکر سے قلب اور قلب کے ذکر سے روح ذکر پکڑتی ہے،

    غرض ظاہری و باطنی کا مظاہرہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اپنے وقت کے یگانۂ روزگار علما آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر فیض حاصل کرتے تھے۔

    جلیل القدر علما و صوفیا جیسے مولانا ارشاد حسین رامپوری، مولانا عبدالقادر بدایونی، احمد رضا خاں بریلوی، مولانا سلامت اللہ رامپوری، شاہ فضل رحمٰن گنج مرادآبادی، علی حسین اشرفی کچھوچھوی، مولانا وصی احمد محدث سورتی، مولانا نعیم الدین مرادآبادی، حاجی وارث علی، غوث علی شاہ پانی پتی، مولانا شاہ سلیمان پھلواروی، سید قادر بخش محدث شہسرامی اور مولانا عین القضاۃ لکھنوی وغیرہ آپ سے خصوصی مراسم رکھتے تھے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ شاہ جی محمد شیر میاں سے سچی محبت کا ثبو دیتے ہوئے ان کے فرمودات کے ساتھ ساتھ ان کے افعال و کردار کو بھی سرگرم زندگی کا حصہ بنایا جائے، شریعت و طریقت کا یہ آفتاب زندگی بھر خدمت خلق کرتا ہوا ۵ ذی الحجہ ۱۳۲۴ ھ بروز اتوار مطابق ۲۰ جنوری ۱۹۰۷ء کو ہماری ظاہری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے