Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

تذکرۂ حضرت شاہ محمد شفیع صابری امجدی عرف ’’بابا بھولا شاہ مجھولوی‘‘

التفات امجدی

تذکرۂ حضرت شاہ محمد شفیع صابری امجدی عرف ’’بابا بھولا شاہ مجھولوی‘‘

التفات امجدی

MORE BYالتفات امجدی

    حضرت شاہ محمد شفیع خاں عرف ’’بابا بھولا شاہ‘‘ سلسلۂ صابریہ امجدیہ کے ایک جلیل القدر پیرِ طریقت تھے، آپ کے مریدین نہ صرف اتر پردیش، بہار اور بنگال میں بلکہ ہندوستان کے دیگر صوبوں میں بھی کثیر تعداد میں موجود تھے، مختلف مذاہب کے افراد بھی آپ سے عقیدت رکھتے تھے، جن میں بہت سے آج بھی ملک و بیرونِ ملک مقیم ہیں، شاید یہی وجہ تھی کہ آپ کے لنگر خانے سے جو کھانا تقسیم ہوتا تھا، وہ بالکل شاکاہاری ہوتا، جس میں گوشت، مچھلی، انڈا وغیرہ شامل نہ ہوتا تھا۔

    بابا بھولا شاہ کی ولادت 28 محرم الحرام 1325ھ، مطابق 13 مارچ 1907ء بروز بدھ صبح 9 بجے، موضع مجھولی راج، تحصیل سلیم پور، ضلع دیوریا (اتر پردیش) میں ہوئی، آپ کے والد گرامی کا نام محمد سلیم خان، والدہ محترمہ کا نام بی بی آمنہ اور دادا کا نام دانش علی عرف دانی میاں تھا، آپ کے دو چھوٹے بھائی، ولایت حسین خان اور بقرید حسین خان اور ایک بہن جمعراتی بی بی تھیں، آپ کے والدین اگرچہ معاشی طور پر کمزور تھے لیکن سخاوت کے پیکر تھے، وہ مشائخِ پھلواری شریف سے وابستہ تھے، جن کا اکثر آپ کے گھر آنا جانا رہتا تھا، آپ کا تعلق یوسف زئی پٹھان قبیلے سے تھا جو اصلًا بلرام پور (گونڈہ) کے رہائشی تھے، بعد ازاں ملازمت کی غرض سے مجھولی راج آ کر وہیں مقیم ہو گیے۔

    آپ کے آبا و اجداد اہلِ دل اور مشائخ کے قدردان تھے، جب والد کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتے، آپ بھی ہمراہ جاتے اور دعاؤں کے طالب ہوتے، انہی بزرگوں کے سائے میں آپ کی تربیت ہوئی، دینی تعلیم محلے کے امامِ مسجد سے اور پرائمری تعلیم دیہاتی اسکول سے حاصل کی، معاشی تنگی کے باعث 1928/29ء میں تلاشِ معاش کے لیے ہاوڑہ، بعد ازاں چچازاد بھائی محمد تاج خان کے ساتھ آسنسول تشریف لے گیے مگر کامیابی نہ ملی اور مایوس ہو کر وطن لوٹ آئے۔

    1931ء میں سنِ بلوغ کو پہنچنے پر والد نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے آپ کا نکاح موضع بھٹولی، تحصیل سلیم پور (دیوریا) کی بی بی حمیدہ خاتون بنت گلاب شیخ سے کر دیا، آپ کے یہاں سات بیٹیاں اور ایک فرزند، شاہ علیم الدین خان تولد ہوئے۔

    بچپن سے ہی آپ کا مزاج صوفیانہ تھا اور آپ ایک کامل پیرِ طریقت کی تلاش میں تھے، آخر کار حضرت بابا مراد علی شاہ صابری امجدی جو حضرت مولانا سید شاہ تصدق علی اسد صابری امجدی (عرف سلطان اسد/شیر شاہ/پر والے شاہ صاحب) کے خلیفۂ مجاز تھے، کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ارادت کی خواہش ظاہر کی، شیخ نے آپ کو مرید کر کے بھولا شاہ کا لقب عطا فرمایا۔

    آپ دن رات اپنے شیخ کی خدمت میں رہتے، حتیٰ کہ گھر کی خبر بھی نہ رکھتے، گھر میں فاقے کی نوبت آ گئی تو مرشد نے حکم دیا کہ برن پور (بنگال) میں ماموں کے پاس جا کر ذریعۂ معاش تلاش کریں، آپ برن پور تشریف لے گیے اور جلد ہی اسٹیل فیکٹری میں ملازمت مل گئی، اس سے گھریلو حالات میں بہتری آئی، دورانِ ملازمت پیر و مرشد بابا مراد علی شاہ کا قیام کبھی مجھولی اور کبھی برن پور میں ہوتا، جس سے دونوں مقامات کے لوگ مستفیض ہوتے، آپ مرشد کی صحبت میں روحانی تربیت حاصل کرتے رہے، تکمیلِ سلوک کے بعد آپ کو خرقۂ خلافت عطا کیا گیا اور صندلی پیراہن پہنایا گیا، مرشد کے وصال (17 اپریل 1951ء) کے بعد آپ نے سیاہ پیراہن اختیار کیا اور خدمتِ خلق میں مشغول ہوگیے۔

    آپ دراز قد، لاغر و چست جسم، سانولی رنگت اور خوش وضع چہرے کے مالک تھے، ریش مبارک اور کاکل کی جھلک چہرے پر جاذبِ نظر معلوم ہوتی، سر پر سیاہ صافہ اور بدن پر شال یا تہبند و کرتا زیبِ تن فرماتے، گرمیوں میں صرف بنیان و تہبند میں رہتے، سردیوں میں آگ کی انگیٹھی سامنے رکھ کر بیٹھتے، پیتابہ کبھی نہ پہنتے، حتیٰ کہ شدید سردی میں بھی نہیں، ہاتھ میں عصا، پیروں میں کھڑاؤں اور سفر میں چمڑے کے جوتے پہنتے، آپ کی چال تیز و پرجوش ہوتی، آپ خاکساری اور ادب کا پیکر تھے، اگر ٹرین سیوان سے گزرتی تو نعلین اتار کر کھڑے ہو جاتے اور مراقب ہو جاتے، اخیر عمر میں سیٹ پر ہی دو زانو ہو جاتے، آپ سیوان کا ذکر ہمیشہ سیوان شریف کہہ کر کرتے۔

    آپ ضرورت مندوں کو تعویذ اور خاکِ شفا عطا فرماتے اور صدقے کی ترغیب دیتے، خانقاہ (مجھولی) سے متعلق آمد و رفت کے لیے ایک مخصوص رکشہ ہوتا، جس میں آپ خادم کے ساتھ تشریف لے جاتے، مریدین کا ہجوم پیچھے پیچھے ہوتا، محافلِ سماع میں شرکت فرماتے، وجد میں آ کر حق! حق! حق! کی صدا لگاتے اور آخر میں سجدہ ریز ہو جاتے، عرس کی تقریبات میں صلوٰۃ و سلام خود پڑھتے، بعدہٗ قل شریف ہوتا، آپ اکثر گریہ فرماتے اور آنسو پونچھتے رہتے۔

    آپ کی اہلیہ بی بی حمیدہ کا انتقال 31 دسمبر 1977ء کو ہوا اور وہ خانقاہ اسدیہ مرادیہ، مجھولی کے احاطے میں مدفون ہوئیں، ان کی یاد میں آپ نے 1978ء میں حمیدیہ مڈل گرلز اسکول قائم فرمایا جو حکومتِ اتر پردیش سے منظور شدہ ہے۔

    آپ نے طویل عمر پائی، 10 شوال 1421ھ مطابق 5 جنوری 2001ء بروز جمعہ، شب 9:27 بجے آپ نے وصال فرمایا، آپ کی تدفین آپ کے حجرۂ خاص میں ہوئی، مزار پر شاندار گنبد تعمیر ہے۔

    آپ کے اہم خلفاء میں حضرت عطاؤاللہ شاہ، حضرت صوفی عبدالقادر گیان شاہ، حضرت مظفر حسین سعدی پوری، حضرت اکرام حسین خان المعروف زمرد شاہ، حضرت حافظ طبیب الدین (سہرسہ)، حضرت صوفی اختر حسین (بھاگلپور)، حضرت اظہار شاہ (برن پور) شامل تھے، جب کہ حضرت شاہ علیم الدین خان اور حضرت صوفی حافظ شمیم الدین احمد اسدی مجھولوی آج بھی سلسلۂ صابریہ امجدیہ کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔

    حضرت بابا بھولا شاہ کے فیض سے امجدیہ کی کئی شاخیں قائم ہوئیں، جہاں ہر سال عرس کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں، ان میں نشان شریف، گاگر شریف، محافلِ سماع اور لنگر شریف کا اہتمام ہوتا ہے۔

    (1) خانقاہ اسدیہ مرادیہ کاما پور، لال گنج، وجئے پور، مرزا پور (اتر پردیش )

    (2) خانقاہ اسدیہ مرادیہ، سعدی پور، تحصیل بارسوئی، پوسٹ بلرام پور، کٹیہار (بہار)

    (3)خانقاہ اسدیہ مرادیہ، بلاری، بانکا (بہار)

    (4) خانقاہ اسدیہ مرادیہ، اندرواں عباداللہ، تھاوے گوپال گنج (بہار)

    (5) خانقاہ اسدیہ مرادیہ، پیر بڑھونا، فرید پور، دنیاواں، پٹنہ (بہار)

    (6) خانقاہ اسدیہ مرادیہ، بلرام پور، مراد نگر، رنگ ڈیہہ، پورلیا (بنگال)

    (7) خانقاہ اسدیہ مرادیہ، ٹاٹا نگر، پوسٹ مانگو جمشید پور، سنگھ بھوم (جھارکھنڈ)

    (8) خانقاہ اسدیہ مرادیہ، مدھو پور، لال گڑھ، دیو گھر (جھارکھنڈ)

    (9) خانقاہ مرادیہ بھولائیہ، پیولی، ہتھوا، گوپال گنج (بہار)

    (10) خانقاہ بھولائیہ، بیرے بھاٹ،بھلائی، دُرگ (چھتیس گڑھ)

    (11) خانقاہ بھولائیہ، ہالڈیج، ٹاٹا نگر، پوسٹ مانگو جمشید پور، سنگھ بھوم (جھارکھنڈ)

    (12) خانقاہ بھولائیہ، منجھلا ڈیہہ، گانڈے، گریڈیہہ (جھارکھنڈ)

    (13) بابا بھولا آشرم، بریار پور، اکاشی، مونگیر (بہار)

    بابا بھولا شاہ کے وصال کے بعد کچھ خانقاہوں کے نام میں بھولائیہ کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

    حضرت شاہ علیم الدین خان المعروف قائم شاہ آپ کے فرزند، خلیفہ و جانشین اور خانقاہ اسدیہ مرادیہ، مجھولی کے موجودہ سجادہ نشیں ہیں، حضرت حافظ شمیم احمد شاہ، آپ کے خلیفہ اور قریبی رشتہ دار ہیں، انہوں نے 2011ء میں خانقاہ قادریہ چشتیہ کے نام سے حسین آباد، ساکیت نگر، دیوریا میں سلسلے کی ایک شاخ قائم کی، جس کے ساتھ مسجد اور مدرسہ بھی ہے، وہ صاحبِ دل، مہذب، منکسرالمزاج اور خلیق شخصیت کے حامل ہیں، سلسلے کے فروغ میں مصروفِ عمل ہیں۔

    بتاریخ 14 شعبان المعظم 1446ھ، مطابق 13 فروری 2015ء کو آپ کے زیرِ اہتمام، موضع مہابن، نزد درگاہ حضرت سید میراں داتا حسین شاہ، دیوریا (یوپی) میں سلسلۂ صابریہ امجدیہ کی ایک نئی شاخ کی بنیاد رکھی گئی، خدا اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے